کراچی —
بڑی بڑی مونچھیں، گلے میں پڑا ہوا تعویذ ۔۔۔نڈر اور اس پر ایسے زور آزما بازو کہ ایک ہی وار میں گاڑیوں کے شیشے چکنا چور ہوجائیں ۔۔۔یہ ہے گلو بٹ ۔لاہور کا رہائشی جسے پرسوں تک کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر، آج ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
ٹی وی پر ۔۔۔اخبارات میں۔۔۔انٹرنیٹ پر۔۔۔۔سوشل میڈیا میں ۔۔۔ہر جگہ گلو بٹ کی شہرت کے چرچے ہیں۔ اور ہوں بھی کیوں نہ۔۔جو اس نے کیا ۔۔اس کے لئے ہمت چاہئے ہوتی ہے ۔۔اور ایسی ہمت کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے۔
لیکن اس شہرت کے باعث ہی گلو بٹ کو آج حراست میں لے لیا گیا ۔۔۔کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے خود کو سرینڈر کیا ہے ۔کسی طرح ہی سہی، گلو بٹ اب پولیس کا مہمان ہے۔
منگل کے روز لاہور میں جب پولیس عوامی تحریک انصاف اور منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی، اور جو بعد میں جان لیوا تصادم میں بدل گئی، گلو بٹ جانے کس کی شہ پر وہاں کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنے میں لگا ہوا تھا۔ ایک کے بعد ایک گاڑی کی شامت آرہی تھی۔
وڈیو فوٹیج کے مطابق، ایسے میں پولیس کے درجنوں نوجوانوں اور افسروں نے بھی گلو بٹ کی دیوانگی دیکھی مگر کسی ایک نےبھی اسے قانون ہاتھ میں لینے سے منع نہیں کیا جبکہ ایک کیمرے نے تو مسلسل اس کا تعاقب کئے رکھا، اور یوں، ملک کے تمام ٹی وی چینلز جیسے جیسے لاہور واقعے کو کیمرے کی آنکھ سے دکھاتے رہے ۔۔گلو بٹ کی ’کارستانیاں‘ بھی ٹی وی اسکرینز پر نظر آتی رہیں۔۔لوگ ہکابکا ہوکر یہ مناظر دیکھتے رہے اور پوچھتے رہے ’یہ آدمی آخرہے کون۔۔؟‘
شام ہوتے ہوتے گلو بٹ سوشل میڈیا پر ’چھاتا چلا گیا ۔۔۔جبکہ، بد ھ کے تمام اخبارات میں بھی اس کی تصاویر شائع ہوئیں ۔۔۔لہذا، بدھ کی شام کو کوئی بھی ایسا شخص مشاہدے میں نہیں آیا جو یہ پوچھ رہا ہو کہ گلو بٹ کون ہے؟
شروع میں تو میڈیا بھی گلو بٹ کی اصل پہچان سےغافل رہا کیوں کہ پہلے کسی نے یہ خبر چلائی کہ وہ پولیس کا مخبر ہے ۔۔۔بعد میں کہیں سے یہ شور اٹھا کہ وہ قبضہ مافیا کا رکن ہے ۔۔کئی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ حکمرانوں کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔یہ سب غیر مصدقہ اطلاعات تھیں، شاید۔۔کیوں کہ پنجاب حکومت کے اہم رکن رانا ثناء اللہ اور وزیر ریلوے سعد رفیق نے واشگاف الفاظ میں میڈیا کو بتایا کہ گلو بٹ کا ان کی جماعت، یعنی مسلم لیگ ن سے کوئی واسطہ نہیں۔
گلو بٹ کو راتوں رات نہیں گھنٹوں میں شہرت ملی۔ لیکن، یہ شہرت اچھی ثابت نہیں ہوئی، کیوں کہ بدھ کو ان کے خلاف تھانہ فیصل ٹاوٴن لاہور میں دفعہ 506،427 اور 353 کے تحت’پرچہ کٹ‘ گیا۔ انٹرنیٹ پر موجود ایک بلاگ میں یہاں تک کہا گیا کہ گلو بٹ پاکستانی سیاست کا بدنما چہرہ ہے۔
ٹی وی پر ۔۔۔اخبارات میں۔۔۔انٹرنیٹ پر۔۔۔۔سوشل میڈیا میں ۔۔۔ہر جگہ گلو بٹ کی شہرت کے چرچے ہیں۔ اور ہوں بھی کیوں نہ۔۔جو اس نے کیا ۔۔اس کے لئے ہمت چاہئے ہوتی ہے ۔۔اور ایسی ہمت کم ہی لوگوں میں ہوتی ہے۔
لیکن اس شہرت کے باعث ہی گلو بٹ کو آج حراست میں لے لیا گیا ۔۔۔کچھ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے خود کو سرینڈر کیا ہے ۔کسی طرح ہی سہی، گلو بٹ اب پولیس کا مہمان ہے۔
منگل کے روز لاہور میں جب پولیس عوامی تحریک انصاف اور منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ سے رکاوٹیں ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی، اور جو بعد میں جان لیوا تصادم میں بدل گئی، گلو بٹ جانے کس کی شہ پر وہاں کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنے میں لگا ہوا تھا۔ ایک کے بعد ایک گاڑی کی شامت آرہی تھی۔
وڈیو فوٹیج کے مطابق، ایسے میں پولیس کے درجنوں نوجوانوں اور افسروں نے بھی گلو بٹ کی دیوانگی دیکھی مگر کسی ایک نےبھی اسے قانون ہاتھ میں لینے سے منع نہیں کیا جبکہ ایک کیمرے نے تو مسلسل اس کا تعاقب کئے رکھا، اور یوں، ملک کے تمام ٹی وی چینلز جیسے جیسے لاہور واقعے کو کیمرے کی آنکھ سے دکھاتے رہے ۔۔گلو بٹ کی ’کارستانیاں‘ بھی ٹی وی اسکرینز پر نظر آتی رہیں۔۔لوگ ہکابکا ہوکر یہ مناظر دیکھتے رہے اور پوچھتے رہے ’یہ آدمی آخرہے کون۔۔؟‘
شام ہوتے ہوتے گلو بٹ سوشل میڈیا پر ’چھاتا چلا گیا ۔۔۔جبکہ، بد ھ کے تمام اخبارات میں بھی اس کی تصاویر شائع ہوئیں ۔۔۔لہذا، بدھ کی شام کو کوئی بھی ایسا شخص مشاہدے میں نہیں آیا جو یہ پوچھ رہا ہو کہ گلو بٹ کون ہے؟
شروع میں تو میڈیا بھی گلو بٹ کی اصل پہچان سےغافل رہا کیوں کہ پہلے کسی نے یہ خبر چلائی کہ وہ پولیس کا مخبر ہے ۔۔۔بعد میں کہیں سے یہ شور اٹھا کہ وہ قبضہ مافیا کا رکن ہے ۔۔کئی لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ حکمرانوں کی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔یہ سب غیر مصدقہ اطلاعات تھیں، شاید۔۔کیوں کہ پنجاب حکومت کے اہم رکن رانا ثناء اللہ اور وزیر ریلوے سعد رفیق نے واشگاف الفاظ میں میڈیا کو بتایا کہ گلو بٹ کا ان کی جماعت، یعنی مسلم لیگ ن سے کوئی واسطہ نہیں۔
گلو بٹ کو راتوں رات نہیں گھنٹوں میں شہرت ملی۔ لیکن، یہ شہرت اچھی ثابت نہیں ہوئی، کیوں کہ بدھ کو ان کے خلاف تھانہ فیصل ٹاوٴن لاہور میں دفعہ 506،427 اور 353 کے تحت’پرچہ کٹ‘ گیا۔ انٹرنیٹ پر موجود ایک بلاگ میں یہاں تک کہا گیا کہ گلو بٹ پاکستانی سیاست کا بدنما چہرہ ہے۔