کراچی —
پاکستان کے شمالی علاقے میں واقع وادی چترال قدرتی حسن سے مالا مال ہے جبکہ یہاں صدیوں سے آباد ’کیلاش‘ قبیلہ اپنی منفرد تہذیب اور ثقافت کی وجہ سے پاکستان کے رنگا رنگ کلچر میں ہیرے کی طرح دمکتا چلا آرہا ہے۔ لیکن گزرتے وقت اور حالات کی سختیوں کے باعث اب اسے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ قبیلے کے افراد کی تعداد گھٹتے گھٹتے 6 ہزار تک محدود ہو گئی ہے جو ایک لمحہ ِفکریہ ہے۔
وادی چترال کئی چھوٹی چھوٹی وادیوں کا مجموعہ ہے جن میں ’بمبوریت، رمبور اور بریر‘ نام کی وادیاں بھی شامل ہیں۔ کیلاش قبیلے کے زیادہ تر افراد انہی وادیوں میں آباد ہیں۔ایک دور میں اس قبیلے کو وادی کا حکمراں قبیلہ تصور کیا جاتا تھا۔
پاکستان کے ایک موخر انگریزی اخبار ’ٹری بیون‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کے بیشتر افراد نے رضاکارانہ طور اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ہی ان کی روایات، ثقافت اور رہن سہن بھی یکسر بدل رہا ہے۔ یہ سلسلہ نا صرف اِس وقت بھی جاری ہے بلکہ اس میں بہت تیزی آگئی ہے۔
ماہرین سماجیات نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو منفرد ثقافت اور قدیم روایات کے امین اس قبیلے کا نام ونشان مٹ جائے گا کیوں کہ اس تبدیلی سے قدیم تہذیب کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
ماہر سماجیات اقبال نسیم کا کہنا ہے ’ضرورت اس امر کی ہے کہ قبیلے کے لباس اور زندگی گزارنے کے طریقے اور کلچر کو کتابوں میں محفوظ کیا جائے کیوں کہ کیلاش وادی کی روایات تیزی سے دم توڑ رہی ہیں اور یہ مشترکہ عالمی ورثہ کا بڑا نقصان ہو گا۔‘
سوشل ورکر وقاص علی کے خیال میں، ’جدید تعلیم کیلاش کلچر کے زوال کی ذمہ دار ہے۔ جیسے جسے تعلیم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، قبیلے کے افراد اپنی روایات چھوڑتے جارہے ہیں۔ عالمی کلچر سے جڑنے کے لئے وہ اپنا صدیوں پرانا کلچر اور ثقافت ترک کرنے پر آمادہ ہیں۔‘
سب کچھ ختم نہیں ہوا
کیلاش قبیلے کے بہت سے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں ایسے بھی ہیں جو جدید تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر اور روایات پر فخر کرتے ہیں اور ان پر خوشی خوشی عمل بھی کرتے ہیں۔ شیریں گل یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے لئے بطور ہیلتھ پروموٹر کام کرنے والی میتا گل کا شمار بھی ایسے ہی نوجوانوں میں ہوتا ہے۔
اپنے روایتی لباس میں ملبوس میتا نے بتایا کہ ان کے قبیلے میں خواتین کوحاصل ہونے والی آزادی کسی بھی دوسرے قبیلے سے زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے قبیلے میں ارینج میرجیز کا رواج پڑ گیا تھا جس سے شادی کے بعد علیحدگی کے کیسز میں اضافہ ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرانی روایت کے مطابق اب لڑکا لڑکی شادی کے لئے خود اپنا جیون ساتھی منتخب کرتے ہیں۔
میتا گل کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ دوسرے مذاہب کی طرف جانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے کیونکہ اب لوگوں میں اپنی روایات کو قائم رکھنے کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔
جب ان سے ان کے رنگارنگ اور خوبصورت لباس کے بارے میں سوال کیا گیا تو میتا گل کا کہنا تھا سردی ہو یا گرمی، مجھے یہی لباس پہننا پسند ہے اور میں اسے بہت آرادم دہ پاتی ہوں۔
وادی چترال کئی چھوٹی چھوٹی وادیوں کا مجموعہ ہے جن میں ’بمبوریت، رمبور اور بریر‘ نام کی وادیاں بھی شامل ہیں۔ کیلاش قبیلے کے زیادہ تر افراد انہی وادیوں میں آباد ہیں۔ایک دور میں اس قبیلے کو وادی کا حکمراں قبیلہ تصور کیا جاتا تھا۔
پاکستان کے ایک موخر انگریزی اخبار ’ٹری بیون‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کے بیشتر افراد نے رضاکارانہ طور اپنا مذہب تبدیل کرلیا ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ ہی ان کی روایات، ثقافت اور رہن سہن بھی یکسر بدل رہا ہے۔ یہ سلسلہ نا صرف اِس وقت بھی جاری ہے بلکہ اس میں بہت تیزی آگئی ہے۔
ماہرین سماجیات نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو منفرد ثقافت اور قدیم روایات کے امین اس قبیلے کا نام ونشان مٹ جائے گا کیوں کہ اس تبدیلی سے قدیم تہذیب کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
ماہر سماجیات اقبال نسیم کا کہنا ہے ’ضرورت اس امر کی ہے کہ قبیلے کے لباس اور زندگی گزارنے کے طریقے اور کلچر کو کتابوں میں محفوظ کیا جائے کیوں کہ کیلاش وادی کی روایات تیزی سے دم توڑ رہی ہیں اور یہ مشترکہ عالمی ورثہ کا بڑا نقصان ہو گا۔‘
سوشل ورکر وقاص علی کے خیال میں، ’جدید تعلیم کیلاش کلچر کے زوال کی ذمہ دار ہے۔ جیسے جسے تعلیم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، قبیلے کے افراد اپنی روایات چھوڑتے جارہے ہیں۔ عالمی کلچر سے جڑنے کے لئے وہ اپنا صدیوں پرانا کلچر اور ثقافت ترک کرنے پر آمادہ ہیں۔‘
سب کچھ ختم نہیں ہوا
کیلاش قبیلے کے بہت سے نوجوان لڑکے اورلڑکیاں ایسے بھی ہیں جو جدید تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کلچر اور روایات پر فخر کرتے ہیں اور ان پر خوشی خوشی عمل بھی کرتے ہیں۔ شیریں گل یونیورسٹی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کے لئے بطور ہیلتھ پروموٹر کام کرنے والی میتا گل کا شمار بھی ایسے ہی نوجوانوں میں ہوتا ہے۔
اپنے روایتی لباس میں ملبوس میتا نے بتایا کہ ان کے قبیلے میں خواتین کوحاصل ہونے والی آزادی کسی بھی دوسرے قبیلے سے زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے قبیلے میں ارینج میرجیز کا رواج پڑ گیا تھا جس سے شادی کے بعد علیحدگی کے کیسز میں اضافہ ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پرانی روایت کے مطابق اب لڑکا لڑکی شادی کے لئے خود اپنا جیون ساتھی منتخب کرتے ہیں۔
میتا گل کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ دوسرے مذاہب کی طرف جانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے کیونکہ اب لوگوں میں اپنی روایات کو قائم رکھنے کا شعور پیدا ہو گیا ہے۔
جب ان سے ان کے رنگارنگ اور خوبصورت لباس کے بارے میں سوال کیا گیا تو میتا گل کا کہنا تھا سردی ہو یا گرمی، مجھے یہی لباس پہننا پسند ہے اور میں اسے بہت آرادم دہ پاتی ہوں۔