|
یہ جنوری 2022 کی ایک برفانی رات تھی اور چاند کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی جب کینیڈا کے امریکی سرحد پر واقع ایک وسیع و عریض سنسان بیابان علاقے میں کھیتوں کے درمیان سے ہر گزرنے والا لمحہ روشن مستقبل کی تلاش میں نکلے بھارتی خاندان کو موت کے قریب لے جا رہا تھا۔
بھارت میں اچھا بھلا خوشحال گھر بار چھوڑ کر جگ دیش پٹیل، ان کی اہلیہ اور دو بچے غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ یخ بستہ ہوا کی وجہ سے درجہ حرارت منفی 38 سینٹی گریڈ محسوس ہو رہا تھا اور ہر سال کئی تارکین وطن کی درد ناک کہانیوں کی طرح اس خاندان کا سفر بھی موت کی آغوش میں ختم ہو رہا تھا۔
انیس جنوری 2022 کی وہ رات اگلی صبح کی طرف جارہی تھی۔ تین بج چکے تھے۔ جگ دیش پٹیل اور ان کا خاندان ان گیارہ افراد میں شامل تھا جو پچھلے کئی گھنٹوں سے بھاری برفباری اور ہڈیوں میں گھسنے والی سردی میں کسی نہ کسی طریقے سے سرحد کی جانب چلتے جارہے تھے، جہاں اسمگلروں
لیکن ان میں زیادہ تر نے سردی سے بچاؤ کے گرم لباس کی بجاے صرف جینز اور ربر کے بوٹ پہنے ہوئے تھے۔
امریکہ میں ریاست منی سوٹا کے شمال میں ان مسافروں کے منتظر ڈرائیور اسٹیو شانڈ نے کینیڈا میں موجود سرحد پا ر کراسنگ کا انتظام کرنے والے ہرش کمار پٹیل کو پیغام دیا، "اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر کوئی برفانی طوفان سے نمٹنے کے لیے گرم لباس میں ہو۔"
ہرش پٹیل کا جگ دیش پٹیل سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ ہرش اور اسٹیو کے خلاف مقدمہ چلانے والے امریکی پراسیکیوٹرز کے مطابق ہرش انسانی اسمگلنگ کے ماہر ہیں اور ان کو "ڈرٹی ہیری" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہرش پٹیل نے حال ہی میں اسٹیو شانڈ کو فلوریڈا کے ایک کیسینو میں اسمگلنگ کے کام کیلئے بھرتی کیا تھا۔
شانڈ نے جن گیارہ بھارتی تارکین وطن کو اپنی گاڑی میں سرحد سے اٹھایا تھا ان میں سے صرف سات ہی زندہ بچ سکے۔
کینیڈا کے حکام کو اگلے روز جگ دیش پٹیل اور ان کی بیوی کی منجمد لاشیں ملیں۔
جگ دیش کی برف کی طرح جمی باہوں میں ان کا تین برس کا بیٹا دھرمیک تھا۔ لیکن کمبل میں لپٹا دھرمیک بے جان ہو چکا تھا۔
اس جان لیوا سفر سے ہفتوں قبل ہرش اور شانڈ سرد موسم کے چیلنج پر بات کرتے رہے۔ شانڈ نے انتہائی ٹھنڈک میں تارکین وطن کے زندہ سلامت پہنچنے کے بارے میں ہرش سے سوال کیا۔ "کیا وہ سب یہاں زندہ حالت میں پہنچ پائیں گے؟"
لیکن ایسا نہ ہوا!
بھارت چھوڑ کر امریکہ میں ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے والے پٹیل خاندان کا سفر بھارتی ریاست گجرات کے گاؤں ڈنگوچا سے شروع ہوا۔ اس خاموش گاؤں میں جگہ جگہ پردیس جانے کے اشتہار نظر آتے ہیں۔
ایک پوسٹر پر لکھا ہے،" بیرون ملک جانے کے اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دیں۔ منازل: کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ۔"
اسی گاوں میں 39 سالہ جگدیش پٹیل پلے بڑھے تھے۔ ان کی شریک حیات ویشالبن کی عمر تیس سال سے اوپر تھی۔ دونوں میاں بیوی اپنے دو بچوں، گیارہ سالہ بیٹی ویہاگنی بیٹے دھرمیک اور جگدیش کے والدین کے ہمراہ ایک ساتھ رہتے تھے۔
جگدیش پٹیل اور ان کی اہلیہ دونوں اسکول میں ٹیچرز تھے۔ علاقے کے معیار کے مطابق، خاندان ایک اچھے مکان میں رہائش پذیر تھا۔ صاف ستھرے دو منزلہ مکان کا آنگن تھا اور ایک برآمدہ تھا۔
علاقے میں کئی روز قیام کرنے والے صحافی ویل بھاوجھا کے مطابق ان کی زندگی گزارنے کا انداز اگرچہ شاہانہ تو نہیں تھا لیکن اسے چھوڑنے کی کوئی فوری ضرورت یا مایوس کن حالات قطعأ نہیں تھے۔
خبر رساں ادارے "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق بھارت سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے لوگوں کی کئی وجوہات ہیں جن میں سیاسی جبر اور امریکہ کاامیگریشن نظام بھی شامل ہیں۔ خیال رہے کہ امریکی امیگریشن نظام کے تحت قانونی طور پر رہائشی اسٹیٹس حاصل کرنے کے لیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔
لیکن ایک بڑی وجہ لوگوں کی معاشی صورت حال ہے ۔ یہاں تک کہ مغرب میں کم اجرت پر کمائی سے زندگی کے بہتر معیار کا حصول امیدوں میں اضافہ بنتا ہے۔
انہیں امیدوں نے ڈنگوچا گاوں کر بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس گاوں سے اتنے زیادہ لوگ قانونی اور غیر قانونی طور پر بیرون ملک جا چکے ہیں کہ کئی مکان خالی پڑے ہیں۔ اور جو لوگ وہاں زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے سوشل میڈیا پر ماضی کے ہمسائے اور اب تارکین وطن کی ان تصویروں کی بھر مار ہے جن میں ان کے گھروں اور کاروں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔
یہ سب باتیں باقی رہنے والے لوگوں کو بھی ملک چھوڑنے پر اکساتی ہیں۔
یہ صورتحال کس طرح لوگوں کو اسمگلروں کا شکار بناتی ہے؟
صحافی جھا کہتے ہیں کہ گاؤں میں اچھی زندگی کی خواہش رکھنے والے لوگوں پر بہت دباؤ ہے۔
اس صورت حال میں اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس خواہشمندوں کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ وہ لوگوں کو بیروں ملک پہنچانے کے لیے فی کس 90 ہزار ڈالر تک چارج کرتے ہیں۔
ڈنگوچا گاؤں میں لوگ اپنی زرعی زمین بیچ کر یہ خرچ برداشت کرتے ہیں۔
امریکہ کے شہر منی یلس میں کام کرنے والے امیگریشن اٹارنی ستویر چوہدری نے بھارت کی گجرات ریاست سے آنے والے ان بہت سے تارکین وطن کی مدد کی ہے جن کی صورت حال کا شہر میں ہوٹلوں کے ان ہی کی آبائی ریاست سے تعلق رکھنے والے کاروباری مالکان ناجائز فائدہ اٹھا تے ہیں۔
وہ کہتے ہیں،"ان کی اپنی ہی برادری نے ان کی حالت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔"
ریاست گجرات کی کاروباری کمیونیٹی سے منسلک اسمگلروں نے ایک خفیہ نیٹ ورک بنایا ہے جو گجرات سے کم اجرت پر کام کرنے کے لیے رضامند افراد کو امریکہ لاتے ہیں۔
بھارت سے غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والےتارکین وطن میں کینیڈا اور امریکہ کی سرحد کے ذریعہ آنے والوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
امریکی بارڈر پیٹرول نے کینیڈا کی سرحد سے ایک سال کے دوران 14 ہزار کے لگ بھگ بھارتیوں کو گرفتار کیا ہے۔ یہ تعداد اس سرحد پر پکڑے جانے والے تارکین وطن کی تعداد کا 60 فیصد ہے اور دو سال پہلے کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔
تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی سال 2022 تک کی رہورٹ کے مطابق امریکہ میں اس وقت غیر قانونی طور پر رہنے والے بھارتیوں کی تعداد سات لاکھ 25,000 کے قریب تھی، یہ تعداد صرف میکسیکو اور ایل سیلواڈور سے غیرقانونی طور پر امریکہ آئے لوگوں کی تعداد سے کم ہے۔
بھارت میں تفتیشی افسر دلیپ ٹھاکر کہتے ہیں کہ پٹیل خاندان کی موت میں ملوث نیٹ ورک کے بارے میں میڈیا میں بہت چرچا ہوا ہے لیکن ایسے سینکڑوں کیس کبھی عدالت تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔
ان کے الفاظ میں غیرقانوی امیگریشن میں ملوث نیٹ ورکس کو لوگوں کو اس سارے عمل کے بارے میں کسی انتباہ یا خطروں سے خبردار کرنےکی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
"وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ امریکہ میں داخل ہونا بہت آسان ہے وہ کبھی بھی اس سفر کے خطرات سے انہیں آگاہ نہیں کرتے۔"
(یہ رپورٹ اے پی سے لی گئی معلومات پر مبنی ہے)
فورم