لاس ویگاس میں جوا خانوں کے قریب واقع پیدل چلنے والوں کے پلوں پر تصاویر لینے پر اب نہ صرف جرمانہ ہو سکتا ہے بلکہ اس کے لیے جیل بھی جانا پڑے گا۔
امریکہ کی ریاست نیواڈا کے سب سے گنجان آباد شہر لاس ویگاس میں اس پٹی پر پیدل چلنے والے پلوں پر تصاویر کھینچنے پر پابندی عائد کی گئی ہے جہاں سے کیسینوز کی روشنیاں اور اس شاہراہ پر فن کا مظاہرہ کرنے والے نظر آتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق لاس ویگاس کی کلارک کاؤنٹی میں نئے نافذ کیے گئے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو چھ ماہ کی قید یا ایک ہزار ڈالرز (لگ بھگ دو لاکھ 80 ہزار پاکستانی روپے) تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
کلارک کاؤنٹی کے کمشنرز نے رواں ماہ ہی اس معاملے پر ووٹنگ کی تھی جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ لاس ویگاس کی پٹی کہلانے والے علاقے میں پیدل چلنے والوں کے پلوں پر رکنا یا کوئی ایسی سرگرمی کرنے پر پابندی ہو گی جس سے دیگر پیدل چلنے والوں کو بھی رکنا پڑ جائے۔
یہ پابندی ایسے تمام پلوں پر لاگو ہو گی جو زمین سے لگ بھگ 20 فٹ بلند ہوں اور وہ سیڑھیوں، لفٹ یا خود کار سیڑھیوں (ایکسیلٹرز) سے منسلک ہوں۔
نئے احکامات کے تحت پلوں پر صرف اس صورت میں کھڑے ہونے کی اجازت ہوگی جب کوئی شخص لفٹ یا سیڑھیوں کے استعمال کے لیے انتظار کر رہا ہو۔
کلارک کاؤنٹی کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’پیڈسٹرین فلو زون آرڈیننس‘ کے نفاذ کا مقصد شاہراہوں پر فن کا مظاہرہ کرنے والے فن کاروں یا تصاویر لینے والوں کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی حفاظت کو ممکن بنانا ہے تاکہ پیدل چلنے والوں کے لیے قائم پلوں پر آمد و رفت میں روانی برقرار رہے۔
بیان کے مطابق اس اقدام سے دنیا کے مشہور ترین سیاحتی مقام پر لوگوں کے لیے محفوظ مقام رہے گا۔
دوسری جانب مقامی انتظامیہ کے اس اقدام پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی عائد کی گئی پابندی امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم کے تحت حاصل حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ریاست نیواڈا میں امریکین سول لبرٹیز یونین کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اطہر حسیب اللہ کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ احتجاج کا حق، کوئی اپنے عقائد کا اظہار کرے یا کوئی سڑک پر فن کا مظاہرہ کرے تو اس پر پابندی کی زد میں آئیں گے۔
ان کے بقول ان حقوق کا اعلیٰ ترین سطح پر تحفظ کیا گیا ہے جن میں عوامی مقامات اور پیدل چلنے والے پل بھی شامل ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔