رسائی کے لنکس

پشتون قومی جرگے کے آخری دن کیا ہوا؟


  • جرگے کے لگ بھگ 80 کیمپوں میں دن بھر اعلامیہ ترتیب دینے کے لیے مشاورت جاری رہی۔
  • قومی جرگے میں لاپتا افراد اور دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ بھی شریک ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
  • جرگے سے پی ٹی ایم کے سربراہر سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بھی تقاریر کی ہیں۔
  • جرگے میں پختون علاقوں میں پرتشدد کارروائیوں میں جانی و مالی نقصان اور دیگر اعداد و شمار بھی مرتب کیے گئے ہیں۔

پشاور__پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیرِ اہتمام جمرود میں ہونے والے سہ روزہ پشتون قومی جرگے کے تیسرے اور آخری دن ایک اعلامیہ جاری ہونے کا امکان ہے۔

اتوار کو جرگے کے آخری دن حتمی اعلامیہ کی تیاری کے لیے جرگے میں شرکاء کے 80 کے لگ بھگ کیمپوں میں موجود افراد کے ساتھ پی ٹی ایم کے سرکردہ رہنماؤں کی مشاورت دن بھر جاری رہی۔ اس کے علاوہ دن بھر کیمپوں میں پی ٹی ایم کے رہنماؤں کی تقاریر کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

تین روز جاری رہنے والے جرگہ پی ٹی ایم نے منعقد کیا تھا جسے کچھ ہی روز پہلے پاکستان کی وفاقی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جرگے کے شرکاء میں دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں بالخصوص جبری طور پر گمشدہ افراد کے رشتہ دار کثیر تعداد میں شریک ہوئے ہیں۔ شرکا میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔

جرگے کے مختلف کیمپوں میں ایسے افراد کی تصاویر جا بجا نظر آرہی ہیں جو یا تو مبینہ طور پر طویل عرصے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں یا انہیں گھات لگا کر کیے گئے دہشت گردی کے حملوں میں قتل کر دیا گیا تھا۔

یوسفزئ قبیلے کے بعد پشتونوں کے دوسرے بڑے قبیلے خٹک سے تعلق رکھنے والے دانشور ادریس خٹک کی تصویر کئی ایک کیمپوں میں نظر آئی۔

ترقی پسند سیاسی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری جنرل ادریس خٹک کو چند مہینے قبل ایک فوجی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ادریس خٹک پر الزام ہے کہ انہوں نے حساس نوعیت کی معلومات ایک غیر ملکی سفارت کار کو فراہم کی تھیں۔

سہہ روزہ جرگہ کے دوسرے روز پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان، نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے محسن داوڑ، قومی وطن پارٹی کے سکندر حیات خان شیرپاؤ اور پاکستان تحریک انصاف کے سابق ممبر قومی اسمبلی ساجد نواز خان نے بھی تقاریر کیں۔

جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان، پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے خوشحال کاکڑ اور دیگر بھی مقررین میں شامل تھے۔

تمام مقررین نے ملک بھر اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور سیکیورٹی اداروں کی حکمتِ عملی پر تحفظات کا اظہار کیا۔

حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی صرف پشتونوں یا خیبر پختونخوا کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔

ان کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو دہشت گردی کے باعث سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصانات کا سامنا ہے۔حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی یا لاپروائی برداشت نہیں کی جاتی ہے۔

جرگہ کے دوسرے روز وفاقی حکومت کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی پی ٹی ایم کے رہنماووں اور عہدے داروں نے اسکرین کے ذریعے پچھلے کئی برسوں سے جاری دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں ہونے والے جانی، مالی اور دیگر نقصانات کے بارے میں اعداد وشمار پیش کیے تھے۔

جرگے میں جاری کردہ اعداد و شمار

جرگے میں جمع ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق اب تک پختونوں سرزمین پر9337 بم دھماکے ہوئے ہیں۔

پشتون قومی جرگے کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک دہشت گردی کے واقعات میں 76584 پشتون ہلاک اور 7600 جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں یا انہیں گرفتار کیا گیا ہے۔ ہلاکتوں میں ڈرون حملوں میں نشانہ بننے والے بھی شامل ہیں۔

انسداد پولیو مہمات کے دوران کے دوران پولیو ٹیم میں خواتین سمیت 213 افراد کو ھلاک کیا گیا۔ ڈیٹا کے مطابق پرتشدد کارروائیوں میں 2000 علما ہلاک ہوئے جن میں سب سے زیادہ علماء وزیرستان میں قتل کیے گئے۔

جرگے کی رپورٹ کے مطابق مختلف علاقوں بالخصوص وزیرستان، باجوڑ اور دیگر قبائلی علاقوں میں باردوی سرنگوں کے 300 سے زائد دھماکے ہوئے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی اور گھات لگا کر قتل کے وارداتوں میں سب سے زیادہ شمالی وزیرستان کے لوگ قتل ہوئے ہیں۔

قومی جرگے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ہونے والے آپریشنز میں57 لاکھ افراد نے بے گھر ہوئے ہیں جن میں سے 23 لاکھ تاحال آئی ڈی پی یا بے گھر ہیں۔

جرگے میں بتایا گیا ہے کہ ضلع کرم میں شعیہ اور سنی قبائل کے تصادم میں 4100 افراد کی جانیں گئی ہیں۔

جرگے میں خیبر پختونخوا کے قدرتی اور معدنی وسائل پر بھی تفصیلی اعداد وشمار جاری کیے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG