رسائی کے لنکس

لاپتا ہونے والے ایک اور سماجی کارکن کا اپنے گھر والوں سے رابطہ


عاصم کے گھر پہنچنے کی خبر سے ایک روز قبل ہی دیگر دو لاپتا سماجی کارکنوں کی اپنے اپنے گھروں میں واپسی ہوئی تھی۔

رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان میں لاپتا ہونے والے بلاگر اور سماجی میڈیا کے سرگرم کارکن عاصم سعید بھی گھر واپس آ گئے ہیں۔

عاصم کے گھر پہنچنے کی خبر سے ایک روز قبل ہی دیگر دو لاپتا سماجی کارکنوں کی اپنے اپنے گھروں میں واپسی ہوئی تھی۔

عاصم سعید ان پانچ سماجی کارکنوں میں شامل تھےجو جنوری کے پہلے ہفتے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور سے اچانک لاپتا ہو گئے تھے۔

عاصم کے ایک قریبی عزیز نے بین الاقوامی خبررساں ادارے کو نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ عاصم نے اتوار کی صبح ان سے فون پر رابطہ کر کے بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں۔

دوسری طرف عاصم کے والد غلام حیدر نے خبر رساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ وہ ہفتے کو تھوڑی دیر کے لیے گھر آئے تھے جس کے فوری بعد وہ دوبارہ کہیں چلے گئے اور اتوار کو اپنے خاندان کو فون پر پیغام میں بتایا کہ وہ خیریت سے ہیں اور جلد دوبارہ رابطہ کریں گے۔

عاصم کے والد نے خیال ظاہر کیا کہ یا تو وہ سنگاپور یا جرمنی چلے گئے ہیں۔

گزشتہ روز سلمان حیدر اور ایک اور سماجی کارکن کے بازیاب ہونے کی خبر بھی سامنے آئی تھی۔ لیکن تاحال ان کی بازیابی کن حالات میں ہوئی اور انھیں کس نے کن وجوہات کی بنا پر اغوا کیا تھا، اس بارے میں تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔

ابھی تک لاپتا ہونے والے باقی دو سماجی کارکنوں کے بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔

انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے پانچ سماجی کارکن تین چار اور چھ جنوری کے درمیان لاپتا ہو گئے تھے۔

دوسری طرف پاکستانی پارلیمان کی ایوان بالا "سینیٹ" کے چئیرمین رضا ربانی نے اتوار کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب میں ایک بار پھر لوگوں کے ایسے لاپتا ہوجانے پر تشویش کا اظہار کیا۔

" آج بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ریاست کے تحت لوگ غائب ہو جاتے ہیں لیکن ہم میں سے کسی بشمول میرے میں ہمت نہیں ہے کہ ریاست سے یہ سوال پوچھ سکیں کہ اگر یہ مجرم ہیں تو ان کا مقدمہ عدالت میں چلایا جائے۔"

انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے کہا کہ لاپتا ہونے والوں کی گھروں کو واپسی ہو بھی جائے تو بھی یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان کی گمشدگی میں کون لوگ ملوث تھے۔

" لوگ اٹھائے جاتے ہیں اور وہ گھروں کو واپس آ جاتے ہیں جن لوگوں نے ان کو اٹھایا ہوتا ہے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے اور نا ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں۔ "

انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے میثاق پر دستخط کرے۔

اگرچہ ان سماجی کارکنوں کے لاپتا ہونے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی اور نا ہی اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ ان واقعات میں کون ملوث ہے۔ تاہم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے کہا کہ ان تمام کارکنوں کا ایک ہی وقت میں لاپتا ہونا تشویش کی بات ہے۔ بعض حلقوں کی طرف سے اس بات بھی عندیہ دیا جاتا رہا کہ ان افراد کی گمشدگیوں میں مبینہ طور پر سکیورٹی ادارے ملوث ہیں۔ تاہم حکومتی عہدیداران اور سکیورٹی حکام اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں۔

رواں ماہ ہی وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے عندیہ دیا تھا کہ لاپتا ہونے والے سماجی کارکنوں کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور یہ لوگ جلد اپنے گھر والوں کے پاس واپس پہنچ جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG