بیرونِ ملک مقیم یا سیاسی پناہ لینے والے کئی پاکستانیوں نے، جو فوج اور اس کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) پر کڑی تنقید کرتے ہیں دعویٰ کیا ہے کہ انہیں امریکہ ، برطانیہ فرانس اور نیدر لینڈز کے حُکّام نے مشورہ دیا ہے کہ “اپنی حفاظت و سلامتی سے متعلق “خصوصی احتیاط" کریں۔
برطانوی پریس کے مطابق برطانیہ اور یورپ میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق اداروں نے پاکستانی فوج ، خفیہ اداروں ، حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے والے کئی جلاوطن پاکستانی صحافیوں ، دانشوروں اور سرکردہ ناقدین کو خبردار کیا ہے کہ ملک سے باہر بھی "اُن کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں"۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی زندگی اس لیے خطرے میں ہے کیوں کہ وہ پاکستان کی فوج اور خفیہ اداروں کی کارکردگی پر نکتہ چینی کرتے ہیں
لیکن پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات اور حکومتِ پاکستان کے ترجمان فوّاد چوہدری نے بیرونِ ملک ان پاکستانیوں کے موقف کو “مضحکہ خیز” اور گمراہ کُن قرار دیا۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ “لگتا ہے کہ گمراہ کُن معلومات پھیلانے والے کارخانے ایک بار پر فعال ہوگئے ہیں۔" فوّاد چوہدری نے سوال کیا کہ جب پاکستانی ادارے اور حکومتِ پاکستان ، اُن افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہے جو پاکستان میں بیٹھ کر دن رات تنقید کرتے ہیں تو پھر پاکستانی حکومت یا خفیہ ادارے اُن لوگوں کے بارے میں ایسے منصوبے کیوں بنائیں گے جو ملک سے باہر ہیں ؟
پاکستان کی حکومت اور خفیہ اداروں پر تنقید کرنے والے ان افراد کے تحفظ کے حوالے سے خبریں کئی ماہ سے برطانوی پریس میں شائع ہو رہی ہیں۔ برطانوی اخبار دا گارڈیئن کے مطابق یورپی سیکورٹی اداروں نے ایسی وارننگز دوبارہ ایک ایسے وقت جاری کی ہیں جب 29 جنوری 2022 کو برطانوی عدالت نے ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کو نیدر لینڈز میں خود ساختہ جلاوطنی گزارنے والے ایک پاکستانی بلاگر کے قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا ہے۔
اس مقدمے کی دستاویزات کے مطابق لندن کی کنگسٹن کراؤن کورٹ میں وکیل استغاثہ ایلیسن مورگن کیو۔ سی۔ کا کہنا تھا کہ “قتل کی یہ سازش پاکستان میں تیار کی گئی۔”جس کے تحت جون 2021 میں نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں مقیم پاکستانی بلاگر احمد وقاص گورایہ کو قتل کرنے کے منصوبے میں پاکستانی نژاد برطانوی شہری گوہر خان کو “کرائے کے قاتل” کے طور پر رقم ادا کی گئی جس نے لندن سے روٹرڈیم جاکر وقاص گورایہ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔”
جیوری نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے گوہر خان کو قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا ۔ گیارہ مارچ کو اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
گوہر خان کو مجرم پائے جانے کے بعد میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی حُکّام نے جن افراد کو “خطرات” سے آگاہ کیا گیا ہے اُن میں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ بھی شامل ہیں۔
“واراسٹدیز” کے موضوع پر کنگز کالج برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی وجۂ شہرت تو اُن کی شہرۂ آفاق کتاب “ملٹری انکاررپوریٹڈ” ہے جس میں انہوں نے پاکستانی فوج کے اقتصادی مفادات کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی ہے۔ وہ واحد سویلین اور خاتون ہیں جو پاکستان کی بحری فوج کی ڈائریکٹر آف نیول ریسرچ رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ " “2016 سے ریاست کے مزاج میں کافی سختی اور درشتگی آگئی ہے کہ ہر وہ آواز جو اُن کی آواز سے نہیں ملتی اُسے خاموش کردیا جائے۔ گورایہ کے مقدمے نے یہ تو واضح کردیا ہے کہ وہ (پاکستانی) لوگ جو ملک سے باہر ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی حکومت یا ریاست کو تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں اُن کو دھمکایا جاتا ہے اور ان کی سیکورٹی کے مسائل ہیں۔
مگر جواب میں پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات یہی کہتے ہیں کہ “بیرونِ ملک ایسے افراد کو امیگریشن اور سیاسی پناہ کے مسائل درپیش ہیں لہٰذا وہ ایسی “کہانیاں” بناتے ہیں تاکہ سیاسی پناہ کے حصول کے لئے اُن کے دعووں کو اعتبار مل سکے۔”
سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے میں اپنا چودہ برس کا بیٹا کھونے والے قانون دان فضل خان ، آرمی پبلک اسکول شہدا فورم کے صدر ہیں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی۔ 21 جولائی 2020 کو پشاور میں خود پر قاتلانہ حملے کے بعد اب وہ بھی برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے بقول انہیں بھی برطانوی حُکّام نے خطرے سے خبردار کیا ہے۔
وی او اے سے گفتگو میں فضل خان نے بتایا کہ “سانحے کے بعد شہدا کے ورثا نے عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ پھر تحریک طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو گرفتار کیا گیا اور اس پر میں نے عدالتی کارروائی میں ڈی جی آئی ایس آئی، آرمی چیف، اور وزارت داخلہ سمیت کئی ذمہ داران کو فریق بنایا کہ ہمیں خطرہ ہے کہ احسان اللہ احسان کو بھی معافی دے دی جائے گی"۔
واضح رہے اس سے پہلے کہ احسان اللہ احسان کو کسی عدالت میں پیش کیا جاتا وہ سیکورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
فضل خان نے دعوی کیا کہ،"مجھے درجنوں بار انٹیلیجینس اہلکاروں نے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کیں"۔ انہوں نے بتایا کہ 21 جولائی 2020 کو پشاور میں دو موٹر سائیکل سوار افراد نے ان کی گاڑی پر گولیاں چلائیں۔بقول ان کے، " مجھے نہیں پتہ کہ اُن کو کس نے بھیجا تھا مگر وہاں ہر طرف سی سی ٹی وی کیمرہ نصب تھے۔ حُکّام چاہتے تو حملہ آوروں کو گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا"۔
اکتوبر 2020 میں فضل خان برطانیہ منتقل ہو گئے۔
فضل خان کا دعوی ہے کہ اپریل 2021 میں انہیں برطانوی پولیس حُکّام نے کہا کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔ اور اس ملاقات میں کریمہ بلوچ اور ساجد حسین کے واقعات کا ذکر بھی آیا۔
انتالیس ساجد حسین بلوچ کراچی میں انگریزی اخبار "دی نیوز" کے رپورٹر تھے۔ انہوں نے دو ہزار سترہ میں سوئڈن میں سیاسی پناہ حاصل کی تھی جہاں وہ ’بلوچستان ٹایمز‘ نامی ایک نیوز ویب سائٹ بھی چلا رہے تھے۔ وہ مارچ دو ہزار بیس میں لا پتہ ہوئے اور کچھ روز بعد اپریل میں ان کی لاش اپسالہ کے علاقے میں دریا سے ملی تھی۔ تاہم پولیس نے اسے واردات قرار نہیں دیا بلکہ ان کا اندازہ تھا کہ یہ حادثہ یا خودکشی تھی۔
مگر ساجد بلوچ کے خاندان ، صحافیوں کی عالمی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں سب نے ہی سوئیڈش پولیس کے سرکاری موقف سے اتفاق نہیں کیا۔
وایس آف امریکہ کے ساتھی ادارے ریڈیو فری یورپ - ریڈیو لبرٹی” کی ایک خبر کے مطابق صحافتی آزادی پر نظر رکھنے والے ادارے رپورٹس ودآوٹ باڈرز کے ایشیا پیسیفک خطے کے ڈائریکٹر ڈینیئل بیسٹارڈ کا کہنا تھا کہ،
"ہر سراغ اشارہ کر رہا ہے کہ یہ ایک جبری گمشدگی تھی"۔
” تنظیم نے سوئیڈش پولیس سے مطالبہ کیا کہ اس ہلاکت میں "قتل کا امکان رد نہ کیا جائے"۔
سینتیس سالہ کریمہ بلوچ ، انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن اور بلوچ قوم پرست تھیں۔کریمہ بلوچ نے 2006 میں بلوچ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شمولیت اختیار کی اور 2015 میں بی ایس او کی تاریخ کی پہلی خاتون سربراہ مقرر ہوئیں۔ اسی برس ریاست کی جانب سے دہشت گردی کے الزامات کے بعد وہ خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے کینیڈا پہنچیں۔
20 دسمبر 2020 کو وہ کینیڈا میں “لاپتہ” ہوگئیں۔ دو دن بعد 22 دسمبر کو اُن کی لاش ٹورنٹو واٹر فرنٹ میں تیرتی ہوئی ملی۔
کینیڈئین پولیس نے بھی کسی “گڑبڑ” کا امکان رد کرتے ہوئے اس پُر اَسرار موت کو “ڈوب کر ہلاک” ہونے کا واقعہ قرار دیا
لیکن جب وی او اے نے فضل خان سے سوال کیا کہ پاکستانی حُکّام کا موقف تو یہ ہے کہ “پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو بدنام کرنے کے لیے کیے جانے والے اس بے بنیاد پروپیگنڈہ کے ذریعے آپ جیسے عناصر یا تو اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا پھر اپنے آقاؤں اور سرپرستوں کے ، تو فضل خان نے کہا کہ “جبری گمشدگیوں میں ملوّث ہمارے ریاستی ادارے یہ کہتے ہیں کہ ہم بیرونی ایجنٹ ہیں تو “دنیا کی نمبر ون ایجنسی” کا دعویٰ کرنے والوں کی ناکامی ہے کہ ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا کہ ہمیں کسی نے پیسے لالچ یا فائدہ دیا ہو۔ ایک ثبوت تو لاتے کہ ہم نے ایک پاؤنڈ یا ڈالر لیا ہو۔ الٹا آپ (پاکستانی اداروں) کے اوپر برطانیہ کی عدالت میں پانچ ہزار پاؤنڈ ثابت ہوگئے۔” فضل خان نے کہا۔
اخبار دا گارڈیئن کی 5 فروری 2022 کی اشاعت میں حکومت پاکستان کا کہنا تھا کہ ایسے الزامات کہ پاکستان بیرون ملک اپنے اوپر تنقید کرنے والے مخالفین کو کرائے کے قاتلوں کے ذریعے نشانہ بنانا چاہتا ہے سوائے جھوٹ اور بکواس کے کچھ نہیں۔ جب گوہر خان کا مقدمہ شروع ہوا تو بھی پروپیگنڈو کرنے والوں نے پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ اداروں کے خلاف ان ممالک کے قوانین کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا پر عدالت میں زیر سماعت مقدمے کے بارے میں بہتان تراشی پر مبنی مہم چلائی جبکہ عدالت نے گوہر خان کو اس کی ذاتی حیثیت میں مجرم قرار دیا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی طحہٰ صدیقی جو اپنی رپورٹنگ میں فوج اور خفیہ اداروں پر تنقید کرتے رہے ہیں اب فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
دو ہزار اٹھارہ میں پریوینشن الیکٹرونکس کرائمز ایکٹ نامی قانون کے تحت طحہ صدیقی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ۔ 2018 میں وہ ٹیکسی میں اسلام آباد ایئر پورٹ جا رہے تھے جب ان کی گاڑی کو روک کر آٹھ دس مسلّح افراد نے ان پر سڑک پر ہی تشدد کیا۔ اس واقعے کا مقدمہ درج ہوا تاہم طحہ کا کہنا ہے کہ وہ بیرون ملک منتقل ہو گئے اور اس مقدمے کی پیروی نہیں کی۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے طحہٰ صدیقی نے بھی دعویٰ کیا کہ وہ 2018 میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکہ گئے تو ایف بی آئی کے حُکّام نے انہیں بتایا کہ اُن کی زندگی کو خطرہ ہے۔ اور جنوری 2019 میں فرانس کی اندرونی سلامتی سے متعلق ایک خفیہ ادارے کے حُکّام نے بھی انہیں خبردار کیا کہ وہ اپنی حفاظت و سلامتی کے بارے میں احتیاط اختیار کریں۔ جبکہ مارچ دو ہزار اکیس میں طحٰہ نے فرانسیسی پولیس کو شکایت درج کرائی کہ انہیں فون پر دھمکی دی گئی ہے۔
زر علی آفریدی پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے فاٹا سے تعلق رکھتے ہیں اور فاٹا کمیشن آف ہیومن رائیٹس کے بانی ہیں۔ 2017 سےوہ بھی نیدر لینڈز میں جلاوطن ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یورپی حُکّام نے انہیں بھی “احتیاط” کا مشورہ دیا ہے۔
زر علی آفریدی نے وی او اے کو بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے کسی نے ٹوئیٹر پر انہیں پیغام بھیجا کہ وہ بلاگرز انسانی حقوق کے کارکن اور صحافی جو (دھمکی دینے والے کے خیال میں) پاکستان کے خلاف بولتے ہیں ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ زر علی آفریدی کہا کہنا تھا کہ جب انہیں ٹوئیٹر پر دھمکی آئی تو انہوں نے نیدر لینڈز کے حُکّام کو خود بتایا کہ ان ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اور اب ان کے بقول حکام کہتے کہ "ہم آپ کی حفاظت کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں"۔
ان افراد کے ایسے دعووں پر ردِّعمل کے لیے وی او اے نے کئی بار پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ (آئی ایس پی آر) کا موقف بھی جاننا چاہا مگر تاحال جواب نہیں مل سکا۔
فرانس میں مقیم صحافی یونس خان بھی اُن افراد میں شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ فرانسیسی حُکّام نے احتیاط کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
یونس خان نے وی او اے کو بتایا کہ ان کا معاملہ تب شروع ہوا جب پاکستان کی قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی 15 اکتوبر 2021 کو پیرس آئے اورکمیونٹی نے کشمیر کے بارے میں ایک منعقد کی۔
“تقریب میں میں نے شہریار آفریدی سے سوال کیا کہ آپ کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں کیا آپ نے یہاں فرانسیسی حُکّام سے بھی ملاقاتیں کیں ؟ تاکہ کشمیر کا مسئلہ اجاگر ہوسکے ؟ جس پر شہریار آفریدی نے کہا کہ وہ علاج کے لیے فرانس آئے ہیں۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوئی تو پاکستان بھر کے ٹی وی چینلز نے دکھائی۔ 18 اکتوبر کو شہریار آفریدی نے پی ٹی آئی کے فرانس میں مقیم رہنماؤں سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ یونس خان کو رگڑا دو اگر آپ پاکستانی اور حلالی ہیں تو یونس خان کو چھوڑنا نہیں۔ اس کو کیفرِ کردار تک پہنچاؤ۔” یونس خان نے شہریار آفریدی کے الفاظ دہرائے۔
شہریار آفریدی (سے منسوب) اس گفتگو کی آڈیو کلپ (جو وی او اے کے پاس بھی ہے) فرانسیسی پولیس کے ہاتھ لگی۔ یونس خان کے مطابق جب پولیس کو پتہ چلا کہ شہریار آفریدی میرے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں جو فرانسیسی قوانین کے تحت جرم ہے تو فرانسیسی حُکّام نے مجھے کہا کہ میں انتہائی محتاط رہوں اور اگر پاکستان جانا چاہوں تو فرانسیسی حُکّام کو مطلع کرکے جاؤں۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے یونس خان کی حمایت میں بیانات بھی جاری کیے۔
یونس خان کا کہنا ہے کہ شہریار آفریدی نے صحافی دوستوں کے ذریعےانہیں کہلوایا کہ، اب خاموش ہوجاؤ ورنہ “مسائل” پیدا ہوسکتے ہیں ، اور بالواسطہ دھمکیاں دینے کی کوشش کی۔ "پھر شہریار آفریدی نے صحافی دوستوں کے ذریعے بھی اور براہ راست بھی مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ اب بس کر دیں بہت ہوگیا"
یونس خان کے ان دعووں پر وی او اے نے شہریار آفریدی سے ان کا موقف جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ “ہم تو آزادئ اظہار پر یقین کرتے ہیں اگر میں نے برا منایا ہوتا تو اسی وقت ری ایکٹ (ردعمل ظاہر ) کرتا۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔ میں نے تو خود یونس خان سے دو تین دفعہ بات کی۔ میرا نہ کوئی مسئلہ نہ کچھ تو میں اس سطح پر کیوں جاؤں ؟
وی او اے کے اس سوال پر کہ آپ کا کوئی ذاتی عناد یونس خان کے ساتھ نہیں ہے ؟ شہریار آفریدی نے کہا “نیور ۔۔۔ نیور ۔۔نیور ۔۔۔”
شہریار آفریدی نے کہا کہ “مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہے اس کے پیچھے۔
جب وی او اے نے پوچھا کہ کیا آڈیو آپ کی نہیں تو شہریار آفریدی نے کہا کہ لاحول ولہ قوۂ ۔۔۔