امریکہ کی طرف سے حال ہی میں عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیے جانے والے تین پاکستانیوں کے بارے میں کوئی باوثوق معلومات تو حاصل نہیں ہو سکی ہیں لیکن یہ شیخ امین اللہ کے قریبی ساتھی بتائے جاتے ہیں جو چند سال پہلے سعودی عرب میں ان کی گرفتاری کے بعد سے روپوش ہیں۔
شیخ امین اللہ افغان صوبے کنٹر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ایک عرصے تک وہ پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور کے علاقے گنج میں ایک دینی مدرسہ چلاتے رہے اور 2013ء میں سعودی عرب چلے تھے جہاں بعد میں انھیں حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔
ان پر 2009ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی عائد کی گئی تھی اور ان کا شمار بھی مطلوب عالمی دہشت گردوں میں ہوتا ہے۔
افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے وقت شیخ امین کا مبینہ تعلق ان عرب انتہا پسندوں سے سے قائم ہوا جو حملہ آور فوج کے خلاف لڑ رہے تھے اور بعد ازاں یہ سب القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہوئے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لشکر طیبہ سے بھی وابستہ تھے اور انتہا پسندوں کی بھرتی اور تربیت کے لیے مبینہ طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔
جن تین افراد پر گزشتہ ہفتے ہی امریکی محکمہ خزانہ نے پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈالا ان میں دلاور خان نادر خان، رحمٰن زیب فقیر محمد اور حزب اللہ استم خان شامل ہیں۔
ان میں سے دو کا تعلق پاکستان کے علاقے دیر سے ہے جب کہ ایک کا آبائی علاقہ افغان صوبہ ننگرہار میں ہے۔
شیخ امین اللہ کے ایک سابق معاون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انھیں بھی ان تینوں کے بارے میں کسی طرح کی معلومات نہیں ہیں اور وہ خود بھی شیخ امین کا مدرسہ چھوڑ کر ایک عرصہ قبل اپنے آبائی علاقے باجوڑ میں دوبارہ آ بسے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ کو سلفی مکتبہ فکر سے ہم آہنگ لوگوں کا گڑھ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی سرحدیں افغان صوبے کنٹر سے ملتی ہیں۔
دلاور خان نادر خان کا تعلق خیبرپختونخواہ صوبے کے علاقے دیر سے ہے اور وہ شیخ امین اللہ کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو کہ پشاور اور افغانستان میں ان کی نقل و حرکت کے وقت بھی متعدد بار ان کے ہمراہ تھے اور انھیں پشاور کے مدرسے میں بھی شیخ کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔
رحمٰن زیب فقیر محمد کا تعلق بھی دیر سے ہے اور وہ ایک عرصے تک بسلسلہ روزگار سعودی عرب میں مقیم رہے۔ افغان ذرائع باور کرتے ہیں کہ ممکنہ طور پر ان کی سعودی عرب میں شیخ امین اللہ سے ملاقاتیں رہیں اور اسی بنا پر ان کا نام بھی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
حزب اللہ استم خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ افغان صوبے ننگرہار سے تعلق رکھتے تھے لیکن وہ گنج میں مدرسے سے وابستہ تھے اور شیخ امین اللہ کی مسجد میں بطور موذن بھی فرائض انجام دیتے رہے۔
ان تینوں افراد کو القاعدہ اور لشکر طیبہ کو مبینہ طور پر معاونت فراہم کرنے پر امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے۔