واشنگٹن —
فرانس کے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ تین کرد نژاد خواتین سیاسی کارکنوں کو دارالحکومت پیرس میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔
فرانس کے وزیرِ داخلہ نے واردات کو "منظم قتل" قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پولیس اس کی تیزی سے تفتیش کرے گی۔
ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کی شناخت 'سکین کانسیز' کے نام سے ہوئی ہے جو 'پی کے کے' کے نام سے معروف کرد باشندوں کی مسلح تنظیم 'کردستان ورکرز پارٹی' کی بانی رکن تھیں۔
مذکورہ مسلح تنظیم 1980ء کی دہائی سے ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والی دوسری خاتون پیرس میں قائم 'کردش انفارمیشن سینٹر' سے منسلک تھیں جب کہ تیسری مقتول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کرد تحریک کی ایک نوجوان کارکن تھیں۔
واقعے کے چند گھنٹوں بعد فرانس کے وزیرِ داخلہ مینوئل والس پیرس کے 'کردش انفارمیشن سینٹر' پہنچے تو وہاں ان کا سامنا فرانس میں مقیم کرد نژاد باشندوں کے ایک گروہ سے ہوا جو اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر رہا تھا۔
احتجاج کے لیے جمع ہونے والے کرد سیاسی کارکن 'پی کے کے' کے حق میں اور ترکی کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
فرانسیسی وزیرِ داخلہ نے سینٹر کے ذمہ داران کو پولیس تحقیقات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے اور قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔
خیال رہے کہ فرانس میں لگ بھگ ڈیڑھ سے دو لاکھ کرد باشندے مقیم ہیں جن کی اکثریت پیرس اور اس کے نواح میں رہتی ہے۔
ان کرد سیاسی کارکنوں کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 'پی کے کے' اور ترکی کی حکومت کے درمیان مذاکرات کا معطل سلسلہ دوبارہ بحال ہوا ہے۔
قتل کی اس واردات کی ٹائمنگ کے باعث یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اس کے پیچھے کسی کے سیاسی مفادات کارفرما ہوسکتے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' نے ترکی کی حکمران جماعت کے ایک سینئر رہنما کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے ان ہلاکتوں کو 'پی کے کے' کے اندری جاری محاذ آرائی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
پیرس میں قائم کردوں کے ایک دوسرے ادارے 'کردش سینٹر' کے سربراہ کیندل نزان نے بھی ان قیاس آرائیوں کی تائید کی ہے۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں نزان نے کہا ہے کہ قتل کی اس واردات کے پیچھے سخت موقف رکھنے والے حلقوں بشمول ترک فوج کے بعض عناصر یا خفیہ اداروں یا خود 'پی کے کے' کے ان افراد کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو مذاکراتی عمل سے خوش نہیں اور فریقین کے درمیان جاری اس امن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
فرانس کے وزیرِ داخلہ نے واردات کو "منظم قتل" قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پولیس اس کی تیزی سے تفتیش کرے گی۔
ہلاک ہونے والوں میں سے ایک کی شناخت 'سکین کانسیز' کے نام سے ہوئی ہے جو 'پی کے کے' کے نام سے معروف کرد باشندوں کی مسلح تنظیم 'کردستان ورکرز پارٹی' کی بانی رکن تھیں۔
مذکورہ مسلح تنظیم 1980ء کی دہائی سے ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
ہلاک ہونے والی دوسری خاتون پیرس میں قائم 'کردش انفارمیشن سینٹر' سے منسلک تھیں جب کہ تیسری مقتول کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کرد تحریک کی ایک نوجوان کارکن تھیں۔
واقعے کے چند گھنٹوں بعد فرانس کے وزیرِ داخلہ مینوئل والس پیرس کے 'کردش انفارمیشن سینٹر' پہنچے تو وہاں ان کا سامنا فرانس میں مقیم کرد نژاد باشندوں کے ایک گروہ سے ہوا جو اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کر رہا تھا۔
احتجاج کے لیے جمع ہونے والے کرد سیاسی کارکن 'پی کے کے' کے حق میں اور ترکی کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
فرانسیسی وزیرِ داخلہ نے سینٹر کے ذمہ داران کو پولیس تحقیقات کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے اور قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی کرائی۔
خیال رہے کہ فرانس میں لگ بھگ ڈیڑھ سے دو لاکھ کرد باشندے مقیم ہیں جن کی اکثریت پیرس اور اس کے نواح میں رہتی ہے۔
ان کرد سیاسی کارکنوں کا قتل ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب 'پی کے کے' اور ترکی کی حکومت کے درمیان مذاکرات کا معطل سلسلہ دوبارہ بحال ہوا ہے۔
قتل کی اس واردات کی ٹائمنگ کے باعث یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اس کے پیچھے کسی کے سیاسی مفادات کارفرما ہوسکتے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے 'دی ایسوسی ایٹڈ پریس' نے ترکی کی حکمران جماعت کے ایک سینئر رہنما کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے ان ہلاکتوں کو 'پی کے کے' کے اندری جاری محاذ آرائی کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
پیرس میں قائم کردوں کے ایک دوسرے ادارے 'کردش سینٹر' کے سربراہ کیندل نزان نے بھی ان قیاس آرائیوں کی تائید کی ہے۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں نزان نے کہا ہے کہ قتل کی اس واردات کے پیچھے سخت موقف رکھنے والے حلقوں بشمول ترک فوج کے بعض عناصر یا خفیہ اداروں یا خود 'پی کے کے' کے ان افراد کا ہاتھ ہوسکتا ہے جو مذاکراتی عمل سے خوش نہیں اور فریقین کے درمیان جاری اس امن عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔