واشنگٹن —
انسانیت دوست تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی سالانہ رپورٹ دنیا بھر کی ماؤں اور ان کی صحت کے بارے میں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زچہ و بچہ کی اموات میں کمی کے باوجود ہر سال تیس لاکھ کے قریب نوزائیدہ بچے اپنی زندگی کے پہلی ہی مہینے میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ان میں سے چند تو محض اپنی پیدائش کے بعد چند گھنٹے ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔
’سیو دی چلڈرن‘ کی صدر اور سی ای او کیرولین مائلز کا کہنا ہے کہ، ’’ یہ تصور کہ ترقی پذیر ممالک میں نوزائیدہ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے زیادہ کام نہیں کیا جا سکتا، غلط ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے بچے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔‘‘
’سیو دی چلڈرن‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ’’اس برس ہم نے اس رپورٹ میں نوزائیدہ بچوں پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بچے کی زندگی کا پہلا ہی دن ان کے لیے خطرناک بنتا جا رہا ہے کیونکہ ہماری رپورٹ کے مطابق دس لاکھ سے زائد بچے اپنی پیدائش کے پہلے دن ہی ہلاک ہوئے۔‘‘
رپورٹ کہتی ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کیرولین مائلز کا کہنا ہے کہ، ’’یہ ننھے بچے ایسی بہت سی وجوہات کی بنا پر مر جاتے ہیں جن سے بآسانی بچاؤ ممکن ہے۔ مثلا کوئی انفیکشن یا پھر وقت سے پہلے پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیاں یا پھر پیدائش کے وقت سانس نہ لے سکنے جیسے مسائل وغیرہ ۔۔۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’’ افریقی ممالک میں یہ شرح باقی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
’سیو دا چلڈرن‘ کی رپورٹ کے مطابق چار آسان اور سستے طریقوں سے اس شرح کو بہتر بنایا جانا ممکن ہے۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے ’پری میچور‘ بچوں کو سانس لینے میں دشواری سے بچانے کے لیے حاملہ خواتین کو بروقت ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسے بچے جو پیدائش کے وقت بالکل سانس نہیں لے پاتے انہیں بھی آلہ ِ تنفس کا استعمال کرکے بچایا جا سکتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو نمونیا سے بچانے کے لیے بھی انجیکشنز لگائے جا سکتے ہیں۔
’سیو دی چلڈرن‘ کی صدر اور سی ای او کیرولین مائلز کا کہنا ہے کہ، ’’ یہ تصور کہ ترقی پذیر ممالک میں نوزائیدہ بچوں کی زندگی بچانے کے لیے زیادہ کام نہیں کیا جا سکتا، غلط ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے بچے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔‘‘
’سیو دی چلڈرن‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، ’’اس برس ہم نے اس رپورٹ میں نوزائیدہ بچوں پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ بچے کی زندگی کا پہلا ہی دن ان کے لیے خطرناک بنتا جا رہا ہے کیونکہ ہماری رپورٹ کے مطابق دس لاکھ سے زائد بچے اپنی پیدائش کے پہلے دن ہی ہلاک ہوئے۔‘‘
رپورٹ کہتی ہے کہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کیرولین مائلز کا کہنا ہے کہ، ’’یہ ننھے بچے ایسی بہت سی وجوہات کی بنا پر مر جاتے ہیں جن سے بآسانی بچاؤ ممکن ہے۔ مثلا کوئی انفیکشن یا پھر وقت سے پہلے پیدائش کے دوران ہونے والی پیچیدگیاں یا پھر پیدائش کے وقت سانس نہ لے سکنے جیسے مسائل وغیرہ ۔۔۔ ‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ’’ افریقی ممالک میں یہ شرح باقی دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
’سیو دا چلڈرن‘ کی رپورٹ کے مطابق چار آسان اور سستے طریقوں سے اس شرح کو بہتر بنایا جانا ممکن ہے۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے ’پری میچور‘ بچوں کو سانس لینے میں دشواری سے بچانے کے لیے حاملہ خواتین کو بروقت ٹیکے لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسے بچے جو پیدائش کے وقت بالکل سانس نہیں لے پاتے انہیں بھی آلہ ِ تنفس کا استعمال کرکے بچایا جا سکتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو نمونیا سے بچانے کے لیے بھی انجیکشنز لگائے جا سکتے ہیں۔