پولیس کے مطابق پنجاب کے وسطی ضلع فیصل آباد میں ایک شخص نے اپنی بیوی، ساس اور ایک رشتہ دار خاتوں کو مبینہ طور پر ان کے کردار پر شک کرتے ہوئے دو ساتھیوں کی مدد سے قتل کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ ضلع فیصل آباد کے دور دراز علاقے چک 92 آر بی میں بدھ کو پیش آ گیا۔
پولیس کے مطابق یہ غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ ہے اور ملزمان قتل کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے جبکہ ان کی تلاش کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں مکول میں ایک 15 سالہ طالبہ کو ایک جرگے کے حکم پر اس الزام کے تحت ہلاک کر کے جلا دیا گیا تھا کہ اس نے مبینہ طور پر اپنی سہیلی کی پسند کی شادی کے لیے گھر سے جانے میں مدد کی تھی۔
پولیس نے اس کیس میں ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
رواں سال پاکستان کی فلمساز شرمین عبید چنائے کی غیرت کے نام پر قتل کے موضوع پر بنائی گئی فلم ’اے گرل ان دی ریور‘ کو آسکر انعام سے نوازا گیا تھا۔
فلمساز شرمین سے ملاقات اور بعد ازاں ان کی فلم کی تقریب رونمائی کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ وہ اس قبیح رسم کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن سعی کریں گے۔
تاہم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن زُہرا یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے ابھی تک غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی کے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے قاتلوں کو عموماً معاف کر دیا جاتا ہے کیونکہ وہ قتل ہونے والے عورتوں کے ہی قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ 2015 میں ملک بھر میں 1,100 کے لگ بھگ عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ ایسے واقعات میں قتل کیے گئے مردوں کی تعداد 88 تھی۔
تاہم کمیشن کا ماننا ہے کہ ملک میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی عورتوں اور لڑکیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے کیسوں کو اکثر رپورٹ نہیں کیا جاتا۔
پاکستان نے 2005 میں ضابطہ فوجداری میں ترمیم کر کے غیرت کے نام پر قتل کو قتل عمد قرار دیا تھا مگر اب بھی قتل کی گئی عورتوں کے ورثہ ان کے قاتلوں کو معاف کر سکتے ہیں۔
اسی لیے انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس ضمن میں مؤثر قانون سازی کرے۔