اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ان تین تبتی باشندوں کی صحت کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے جو نیو یارک میں واقع عالمی ادارے کے دفتر کے باہر گزشتہ تین ہفتوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
بدھ کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ "یقین رکھتے ہیں کہ پرامن احتجاج ہر شخص کا حق ہے"۔ لیکن، ان کے بقول، انہیں بھوک ہڑتالیوں کی صحت کے بارے میں تشویش لاحق ہے۔
کمزوری کے باعث وہیل چیئر کے سہارے کے محتاج تینوں بھوک ہڑتالیوں نے بدھ کو 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے بارے میں اعلیٰ عہدیدارایوان سیمونوک نے پیر کو ان کے کیمپ کا دورہ کیا تھا۔
بھوک ہڑتالیوں کے بقول انہوں نے عالمی ادارے کے عہدے دار پر واضح کیا کہ وہ اپنے آبائی وطن میں چینی حکام کی جانب سے جاری کاروائیوں میں نرمی ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں جس کے بعد ہی وہ اپنی بھوک ہڑتال ختم کرنے پر غور کریں گے۔
بھوک ہڑتال پر بیٹھے ان افراد نے اقوامِ متحدہ کو پانچ مطالبات پر مشتمل درخواست روانہ کی ہے جس میں عالمی ادارے سے تبت کی سنگین صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے تحقیقاتی مشن روانہ کرنے کی اپیل بھی شامل ہے۔
تبت کے سیاسی کارکن چین پر علاقائی ثقافت، مذہب اور دیگر آزادیوں پر پابندیاں لگانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ خطے کے بارے میں چینی حکومت کی پالیسیوں پر بطورِ احتجاج چین کے مختلف علاقوں میں گزشتہ 12 ماہ کے دوران میں 26 بدھ بھکشو، راہبائیں اور ان کے حامی خود کو نذرِ آتش کرچکے ہیں۔
بھوک ہڑتالیوں نے عالمی ادارے سے تبت میں نافذ غیر اعلانیہ مارشل لا کے خاتمے کے لیے چین پر دبائو ڈالنے ، بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو علاقے تک رسائی دینے، تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور تبتی بدھ مت کے پیرووں کے جلا وطن روحانی پیشوا دلائی لاما کو باحفاظت وطن واپسی کی اجازت دینے کے مطالبات بھی کیے ہیں۔