واشنگٹن —
ایسے میں جب اِن خبروں کی تصدیق ہو چکی ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں چین کے تبت کے علاقےمیں خود سوزی کے 100 واقعات ہو چکے ہیں، بدھ کے روز نیپال کے دارالحکومت میں تبت کے ایک اور راہب نے اپنے آپ کو نذر آتش کیا۔
خودسوزی کے یہ واقعات گذشتہ چار برس سے جاری ہیں، جِن کا مقصد تبت پر چینی حکمرانی کےخلاف آواز احتجاج بلند کرنا ہے۔
چین میں ذرائع نے’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو بتایا کہ ہلاک ہونے والا یہ سواں شخص چین کے ’اَبا‘ نامی علاقے میں واقع کِرتی مندر کا ایک بھکشو تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس نے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنے آپ کو نذرِ آتش کیا اور تین فروری کو اُن کا انتقال ہوا۔
خود سوزی کےمتعدد واقعات کا آغاز اِسی علاقےسے ہوا تھا، اورچینی حکام کی طرف سےمقامی آبادی کے خلاف پُر تشدد کارروائی کے نتیجے میں صورتِ حال کےبارے میں اطلاعات کی فراہمی میں تاخیر واقع ہو رہی ہے۔
دریں اثنا، نیپال کی تنظیم برائے انسانی حقوق کے سربراہ، سندیپ پاٹھک نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُنھوں نے بدھ کے روز بُری طرح سےجھلس جانے والے بھکشو کی عیادت کی۔ پاٹھک نے کہا کہ احتجاج کرنے والا، جس کی ابھی تک شناخت نہیں ہوپائی، تشویش ناک حالت میں ہے، کیونکہ اُن کے جسم کا 96فی صد حصہ جھلس چکا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ سڑک پر آنے سے قبل اُس نے ساتھ ہی کے ایک ریستوران میں اپنے اوپر مٹی کا تیل چھڑکا اور کھٹمنڈو کے بدھاناتھ آشرم کے سامنے اپنے آپ کو نذرِ آتش کیا۔ یہ مندر بدھ مت کےمتبرک مقامات میں سے ایک ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے خود سوزی کےواقعے کے وقت کا چناؤ تبت کے سالِ نو کی مطابقت سے کیا جب ’لوزار‘ کا جشن جاری ہے۔ جلاوطن تبتی حکومت نے تبت کے لوگوں سے کہا تھا کہ خوشی کےاِس تہوار میں شریک نہ ہوکر، وہ چین میں رہنے والے تبتیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
عینی شاہدوں کے مطابق، پولیس کی موجودگی میں بھکشو چین مخالف نعرے بلند کر رہا تھا، جب کہ دیگر مقامی لوگ شعلےبجھانے کے لیے آگے بڑھے۔ تبتی برادری کے ایک مقامی لیڈر، جنھوں نے اپنی شناخت مَنگما کے نام سے کی، خود سوزی کی کوشش کو خودکشی کی کوشش قرار دیا۔
سنہ 1959میں چینی اقتدار کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد، 20000کے قریب تبتی لوگ نیپال میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نیپال نے تبت کےجلاوطن لوگوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں پر ممانعت عائد کر رکھی ہے اور چین کی برہمی سے بچنے کی غرض سے، حالیہ برسوں کے دوران نیپال نے مظاہرین کے خلاف پُر تشدد کارروائی کا آغاز کیا ہے۔
خودسوزی کے یہ واقعات گذشتہ چار برس سے جاری ہیں، جِن کا مقصد تبت پر چینی حکمرانی کےخلاف آواز احتجاج بلند کرنا ہے۔
چین میں ذرائع نے’وائس آف امریکہ‘ کی تبتی سروس کو بتایا کہ ہلاک ہونے والا یہ سواں شخص چین کے ’اَبا‘ نامی علاقے میں واقع کِرتی مندر کا ایک بھکشو تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس نے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنے آپ کو نذرِ آتش کیا اور تین فروری کو اُن کا انتقال ہوا۔
خود سوزی کےمتعدد واقعات کا آغاز اِسی علاقےسے ہوا تھا، اورچینی حکام کی طرف سےمقامی آبادی کے خلاف پُر تشدد کارروائی کے نتیجے میں صورتِ حال کےبارے میں اطلاعات کی فراہمی میں تاخیر واقع ہو رہی ہے۔
دریں اثنا، نیپال کی تنظیم برائے انسانی حقوق کے سربراہ، سندیپ پاٹھک نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُنھوں نے بدھ کے روز بُری طرح سےجھلس جانے والے بھکشو کی عیادت کی۔ پاٹھک نے کہا کہ احتجاج کرنے والا، جس کی ابھی تک شناخت نہیں ہوپائی، تشویش ناک حالت میں ہے، کیونکہ اُن کے جسم کا 96فی صد حصہ جھلس چکا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ سڑک پر آنے سے قبل اُس نے ساتھ ہی کے ایک ریستوران میں اپنے اوپر مٹی کا تیل چھڑکا اور کھٹمنڈو کے بدھاناتھ آشرم کے سامنے اپنے آپ کو نذرِ آتش کیا۔ یہ مندر بدھ مت کےمتبرک مقامات میں سے ایک ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے خود سوزی کےواقعے کے وقت کا چناؤ تبت کے سالِ نو کی مطابقت سے کیا جب ’لوزار‘ کا جشن جاری ہے۔ جلاوطن تبتی حکومت نے تبت کے لوگوں سے کہا تھا کہ خوشی کےاِس تہوار میں شریک نہ ہوکر، وہ چین میں رہنے والے تبتیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
عینی شاہدوں کے مطابق، پولیس کی موجودگی میں بھکشو چین مخالف نعرے بلند کر رہا تھا، جب کہ دیگر مقامی لوگ شعلےبجھانے کے لیے آگے بڑھے۔ تبتی برادری کے ایک مقامی لیڈر، جنھوں نے اپنی شناخت مَنگما کے نام سے کی، خود سوزی کی کوشش کو خودکشی کی کوشش قرار دیا۔
سنہ 1959میں چینی اقتدار کے خلاف ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد، 20000کے قریب تبتی لوگ نیپال میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
نیپال نے تبت کےجلاوطن لوگوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں پر ممانعت عائد کر رکھی ہے اور چین کی برہمی سے بچنے کی غرض سے، حالیہ برسوں کے دوران نیپال نے مظاہرین کے خلاف پُر تشدد کارروائی کا آغاز کیا ہے۔