امریکہ کے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ امریکہ ان دہشت گرد تنظیموں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر تیار ہے جو محفوظ پناگاہوں کی تلاش میں ہیں۔
امریکہ کے مؤقر اخبار نیویارک ٹائمز میں "مجھے ہماری سفارت کاری پر فخر ہے" کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کو دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ ٹھکانہ بننے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو "ہمارے ساتھ شراکت داری کی خواہش کا اظہار کرنا ہوگا۔"
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشت گرد گروپوں کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔
امریکی وزیرِ خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے تدارک کرنے کے عزم کے تحت ہی ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشا سے متعلق نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کا محور افغانستان ہے۔
اپنے مضمون میں ٹلرسن نے لکھا ہے، "یہ ملک (افغانستان) اب دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں بن سکتا جیسا کہ یہ نائن الیون کے حملوں سے پہلے تھا۔"
امریکہ کے وزیرِ خارجہ کا یہ بیان نائب صدر مائیک پینس کے گزشتہ ہفتے افغانستان کے دورے کے دوران دئے گئے بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان مبینہ طور پر دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے لیکن اب ان کےبقول دہشت گردوں کو پناہ دینے کے دن ختم ہو چکے ہیں اور امریکہ پاکستان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
اگرچہ امریکی وزیرِ خارجہ ٹلرسن کے تازہ بیان پر پاکستان کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تاہم پاکستانی عہدیدار ملکی سرزمین پر کسی بھی شدت پسند گروپ کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کو مسترد کرتے ہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان سے منسلک دھڑے حقانی نیٹ ورک کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہیں جنہیں وہ افغانستان میں عسکری کارروائیوں کی منصبوبہ بندی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے جمعرات کو امریکہ کے نائب صدر پینس کے بیان پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کو تباہ کردیا گیا ہے۔
فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 2014ء میں آپریشن ضربِ عضب کے آغاز سے قبل حقانی نیٹ ورک کی موجودگی سے متعلق الزامات لگائے جا سکتے تھے لیکن اُن کے بقول شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد تمام دہشت گردوں بشمول حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی گئی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے نئی سیکورٹی پالیسی میں بھی پاکستان سے کہا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرے۔
دوسری طرف بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے سخت بیانات اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعلقات کے لیے کسی طور سود مند نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان اور خطے کے امن و سیکورٹی کے لیے دونوں ملکوں میں قریبی تعاون اور اعتماد ضروری ہے۔
دوسری طرف بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے سخت بیانات اسلام آباد اور واشنگٹن کی ترجیحات ایک دوسرےسے مختلف ہونے کی غمازی کرتے ہیں ۔
بین الاقوامی امور کے ماہر حسن عسکری نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی ترجیحات وہی ہونی چاہیے جو امریکہ چاہتا ہے ۔ میرے خیال میں وہ نہیں ہوگا چونکہ اس خطے میں پاکستان کے سیکورٹی کے جو مسائل ہیں وہ اس خطے میں امریکہ کے سیکورٹی کے مسائل سے کافی مختلف ہیں۔"
تاہم انہو ں نے کہا کہ افغانستان اور خطے کے امن و سلامتی کے لیے دونوں ملکوں میں قریبی تعاون ضروری ہے۔
" اگر امریکہ زبانی اپنے موقف کا اعادہ کرتا رہتا ہے لیکن کوئی فوجی قسم کی کارروائی نا ہو تو تعلقات تلخیوں اور ناراضی کے باوجود چلتے رہیں گے کیونکہ جہاں دونوں ممالک کچھ معاملات پر ایک دوسرے نالا ں ہیں وہاں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر امریکہ کو افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔"
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کے ساتھ طویل المدت تعلقات کے لیے مشترکہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں حالیہ مہینوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بھی ہوئے ہیں اور اسی سلسلے میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیرِ دفاع جم میٹس بھی پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔