پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ نے تباہ کن زلزلے سے متاثرہ ہزاروں خاندانوں کی بحالی نو کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری سے مدد فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
عبد المالک بلوچ نے 7.7 شدت کے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع آواران میں پیر کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ امدادی سرگرمیوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کے علاوہ عارضی اسپتالوں میں دستیاب سہولتوں کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔
عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ زلزلے سے متاثرہ اضلاع میں ابتدائی طور پر پاکستانی فوج نقصانات کا تخمینہ لگا رہی ہے تاہم آنے والے دنوں میں دیگر ماہرین کو بھی اس کام میں شامل کرنے پر غور کیا جائے گا۔
وزیر اعلٰی نے کہا کہ زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام سب سے مشکل مرحلہ ہو گا جس میں صوبائی انتظامیہ کو وفاقی حکومت کے علاوہ مخیر حضرات اور بین الاقوامی برادری کا تعاون بھی درکار ہو گا۔
’’یہاں کے لوگ انتہائی غریب ہیں، یہ نا گھر بنا سکتے ہیں نا اپنے کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں ... لہذا بحالی نو کے مرحلے میں ہمیں تمام وسائل برو کار لانا ہوں گے۔‘‘
اُدھر اطلاعات کے مطابق آوارن میں امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا ہے تاہم اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
اس سے قبل بھی پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے چیئرمین سعید علیم کے ہیلی کاپٹر پر بھی نامعلوم مسلح افراد حملے کر چکے ہیں۔
وزیر اعلٰی بلوچستان عبد المالک بلوچ اور اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبد القادر بلوچ نے مقامی مسلح گروہوں سے اپیل کی تھی کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں خلل نا ڈالیں تاکہ زلزلہ متاثرین کو بر وقت امداد فراہم کی جا سکے۔
گزشتہ منگل کو بلوچستان میں آنے والے زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ جو علاقے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں وہ بڑے شہروں سے کافی فاصلے پر واقع ہیں اور وہاں تک رسائی کے لیے دستیاب سڑکوں کو بھی شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے ابتدا میں امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار رہیں۔
متاثرہ علاقوں میں بعد از زلزلہ کئی جھٹکے بھی محسوس کیے جا چکے ہیں جب کہ جمعہ کو 7.2 شدت کا ایک اور زلزلہ بھی آیا تھا۔
عبد المالک بلوچ نے 7.7 شدت کے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع آواران میں پیر کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ امدادی سرگرمیوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کے علاوہ عارضی اسپتالوں میں دستیاب سہولتوں کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔
عبدالمالک بلوچ نے بتایا کہ زلزلے سے متاثرہ اضلاع میں ابتدائی طور پر پاکستانی فوج نقصانات کا تخمینہ لگا رہی ہے تاہم آنے والے دنوں میں دیگر ماہرین کو بھی اس کام میں شامل کرنے پر غور کیا جائے گا۔
وزیر اعلٰی نے کہا کہ زلزلہ زدگان کی بحالی کا کام سب سے مشکل مرحلہ ہو گا جس میں صوبائی انتظامیہ کو وفاقی حکومت کے علاوہ مخیر حضرات اور بین الاقوامی برادری کا تعاون بھی درکار ہو گا۔
’’یہاں کے لوگ انتہائی غریب ہیں، یہ نا گھر بنا سکتے ہیں نا اپنے کھانے پینے کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں ... لہذا بحالی نو کے مرحلے میں ہمیں تمام وسائل برو کار لانا ہوں گے۔‘‘
اُدھر اطلاعات کے مطابق آوارن میں امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا ہے تاہم اس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
اس سے قبل بھی پاکستانی فوج کے ہیلی کاپٹروں کے علاوہ آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘ کے چیئرمین سعید علیم کے ہیلی کاپٹر پر بھی نامعلوم مسلح افراد حملے کر چکے ہیں۔
وزیر اعلٰی بلوچستان عبد المالک بلوچ اور اسی صوبے سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبد القادر بلوچ نے مقامی مسلح گروہوں سے اپیل کی تھی کہ وہ امدادی سرگرمیوں میں خلل نا ڈالیں تاکہ زلزلہ متاثرین کو بر وقت امداد فراہم کی جا سکے۔
گزشتہ منگل کو بلوچستان میں آنے والے زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔
بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ جو علاقے زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں وہ بڑے شہروں سے کافی فاصلے پر واقع ہیں اور وہاں تک رسائی کے لیے دستیاب سڑکوں کو بھی شدید نقصان پہنچا جس کی وجہ سے ابتدا میں امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار رہیں۔
متاثرہ علاقوں میں بعد از زلزلہ کئی جھٹکے بھی محسوس کیے جا چکے ہیں جب کہ جمعہ کو 7.2 شدت کا ایک اور زلزلہ بھی آیا تھا۔