رسائی کے لنکس

فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی غیر قانونی ہے، عالمی عدالتِ انصاف


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے پر قبضے اور مشرقی یروشلم کے الحاق کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے۔
  • آئی سی جے کے 15 رکنی پینل نے اپنی رائے میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کو جنیوا کنوینشن کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
  • نیتن یاہو، جنہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی ایک بڑی توسیع کی نگرانی کی ہے کہا کہ "یہودی افراد حود اپنی ہی سرزمین پر قبضہ کرنے والے نہیں ہیں۔"
  • فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر نے عدالت کے فیصلے کو "انصاف کی فتح" قرار دیا ہے۔
  • اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے متعلق عالمی عدالت کی کارروائی میں شرکت نہیں کی تھی۔ تاہم ایک تحریری بیان میں اسے تنازعات کے حل کی کوششوں کے لے ’نقصان دہ‘ قرار دیا تھا۔

ویب ڈیسک — اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی کو ’خلافِ قانون‘ قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا کہا ہے۔

جمعے کو جاری کی گئی اپنی مشاورتی رائے میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) نے مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاری، مشرقی یروشلم کے الحاق، اس کی زمین پر مستقل کنٹرول اور فلسطینیوں کے خلاف امتیازی قوانین کی نشان دہی بھی کی ہے۔

عالمی عدالت انصاف کی اس مشاورتی رائے پر عمل درآمد لازم نہیں۔ تاہم بین الاقوامی قانون اور اسرائیل کے قبضے سے متعلق واضح مؤقف کی وجہ سے وزن رکھتی ہے اور عالمی سطح پر اسرائیل کی حمایت کو کمزور بھی کرسکتی ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر نے عدالت کے فیصلے کو "انصاف کی فتح" قرار دیا ہے۔

لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، جنہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی ایک بڑی توسیع کی نگرانی کی ہے کہا کہ "یہودی افراد حود اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والے نہیں ہیں۔"

فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے متعلق یہ معاملہ گزشتہ برس اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہونے والی لڑائی سے بہت پہلے عالمی عدالت کے سامنے لایا گیا تھا۔

سال 2022 کے اواخر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مشرقی یروشلیم میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے ’دیرینہ قبضے، آباد کاری اور الحاق‘ جیسے اقدامات پر عالمی عدالتِ انصاف سے رائے طلب کی تھی۔

اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ بعدازاں اسرائیل نے مغربی کنارے پر آبادکاری شروع کردی تھی اور اس میں تیزی سے اضافہ جاری رکھا۔ یہ وہ علاقے ہیں جنہیں فلسطینی اپنی آزاد ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ججوں پر مشتمل 15 رکنی پینل نے جمعے کو اپنی رائے میں کہا ہے کہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں پر مستقل کنٹرول نافذ کرنے اور آبادیاں تعمیر کرکے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں بطور قابض قوت اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کیا ہے۔

پینل نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر آبادیوں کی تعمیر کا کام روک دے۔

مشاورتی رائے میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی موجودگی خلافِ قانون ہے اور اسے جاری رکھنا ’غیر قانونی‘ ہے جسے ’جتنا جلد ہوسکے‘ ختم ہونا چاہیے۔

اسرائیل اقوامِ متحدہ اور آئی سی جے پر اپنے خلاف جانب درانہ رویہ برتنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے فلسطینی علاقوں سے متعلق معاملے پر آئی سی جے کی کسی سماعت میں شرکت نہیں کی تھی۔

تاہم اپنے ایک تحریری بیان میں اسرائیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اس معاملے پر کوئی بھی مشاورتی رائے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع حل کرنے کی کوششوں کے لیے ’نقصان دہ‘ ثابت ہوگی۔

آئی سی جے کی عدالت کے صدر نواف سلام نے مشاورتی رائے پڑھتے ہوئے کہا ’’مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کی جانب سے آباکاروں کی منتقلی اور انہیں وہاں برقرار رکھنا چوتھے جنیوا کنوینشن کے آرٹیکل 49 کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

عدالت نے اس بات پر بھی ’گہری تشویش‘ کا اظہار کیا ہے کہ اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی کا دائرہ مسلسل پھیلتا جارہا ہے۔

آئی سی جے نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ بطور قابض قوت کے اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ علاقوں کے قدرتی وسائل کا استعمال بھی بین الاقوامی قوانین سے ’غیر ہم آہنگ‘ ہے۔

جمعے کو آنے والی یہ مشاورتی رائے ایسے حالات میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ کو 9 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔

ایک علیحدہ مقدمے میں آئی سی جے جنوبی افریقہ کے ان دعوؤں کا جائزہ لے رہی ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیاں نسل کُشی کا درجہ رکھتی ہیں۔ تاہم اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

آئی سی جے میں فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کی موجودگی سے متعلق معاملہ غزہ میں جاری جنگ سے پہلے شروع ہوا تھا اور اس کا حالیہ تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فلسطینی علاقوں سے متعلق جنرل اسمبلی کے عالمی عدالت سے رجوع کرنے کے بعد رواں برس فروری میں 50 ممالک نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں اپنا مؤقف پیش کیا تھا۔

اس کے علاوہ فلسطینی نمائندے نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسرائیل کو فوری طور پر تمام مقبوضہ علاقے خالی کر دینے چاہئیں اور وہاں قائم اپنی غیر قانونی آبادیاں بھی ختم کردینی چاہئیں۔

آئی سی جے میں اپنا مؤقف پیش کرنے والے زیادہ تر ممالک نے عدالت سے کہا تھا کہ وہ اسرئیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دے جب کہ کینیڈا اور برطانیہ سمیت چند ممالک نے عدالت کو اس معاملے کی سماعت نہ کرنے کا کہا تھا۔

اسرائیل کے سب سے قریبی اتحادی امریکہ نے عدالت پر زور دیا تھا کہ وہ مشاورتی رائے کا دائرہ محدود رکھے اور فلسطینی علاقوں سے اسرئیلی افواج کے غیر مشروط انخلا کے احکامات نہ دے۔

اس سے قبل 2004 میں آئی سی جے نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے لگائے بیرئیرز کو بین الاقوامی قوانین کے منافی اور مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاری کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ تاہم اسرائیل نے اس رولنگ کو مسترد کردیا تھا۔

اس خبر کا مواد ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG