افغانستان کے ٹرانسپورٹرز کی ایک نمائندہ تنظیم نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طورخم اور چمن کی سرحدی گزرگاہوں کو آمد و رفت کے لیے کھول دیں کیونکہ ان کی بندش خاص طور پر سامان تجارت لانے اور لے جانے والوں کے لیے شدید مالی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
پیر کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد نور احمد زئی نے کہا کہ دس روز سے زائد عرصے سے ان راستوں کے بندش سے جہاں عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے وہیں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سے منسلک افراد کو ان کے بقول کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد کے دونوں جانب سبزیوں، پھلوں، پولٹری اور دیگر اشیا سے لدے ٹرک کئی روز سے کھڑے ہیں جس سے اس سامان کے ناکارہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
پاکستان نے رواں ماہ کے اوائل میں ہونے والے مختلف دہشت گرد واقعات کے بعد افغانستان کے ساتھ اپنی دونوں اہم سرحدی گزرگاہوں کو یکطرفہ طور پر بند کر دیا تھا۔
حکام اسے سلامتی کے خدشات کے تحت کیا گیا ایک عارضی اقدام قرار دیتے ہیں جب کہ گزشتہ ہفتے ہی پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے عندیہ دیا تھا کہ یہ سرحدی راستے جلد کھل جائیں گے۔
تاہم 16 فروری سے ان گزرگاہوں کی بندش نے خاص طور پر ان افغان شہریوں کو متاثر کیا ہے جو کاروبار یا علاج معالجے کی غرض سے پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔
نور احمدزئی کا کہنا تھا کہ انھیں دونوں ملکوں کے تعلقات کا بخوبی علم ہے لیکن انھوں نے پاکستان اور افغانستان پر زور دیا کہ وہ اپنے مسائل سفارتی اور سیاسی ذریعے سے افہام و تفہیم سے حل کریں کیونکہ دونوں ہمسایہ ملک ہیں جنہیں بالآخر ایک ساتھ ہی رہنا ہے۔
اس موقع پر پشاور میں افغان قونصل خانے کے ایک سفارتکار میرواعظ یوسفزئی بھی موجود تھے۔
ان دونوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی طرف سے دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی پر ممنون ہیں لیکن اب دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں ان افغان شہریوں سے اچھا سلوک روا نہیں رکھا جا رہا جو کہ کسی طور بھی مناسب بات نہیں ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہو چکے ہیں اور اس کے بعد سے ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے دوران گرفتار کیے گئے سیکڑوں مشتبہ افراد میں درجنوں افغان شہری بھی شامل ہیں۔