رسائی کے لنکس

کشیدگی پر بات کے لیے افغان حکام کو پاکستان آمد کی دعوت


سرتاج عزیز نے بتایا کہ طورخم پر فائرنگ کے حالیہ تبادلے کے سبب سرحد کے قریب 180 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر بھی منتقل کیا گیا۔

پاکستان کے وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے طورخم میں حالیہ کشیدگی کے بارے میں قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد پر گیٹ کی تعمیر افغانستان کے ساتھ کسی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

اُنھوں نے حالیہ کشیدگی پر بات کے لیے افغانستان کے اعلیٰ عہدیداروں کو پاکستان آمد کی دعوت بھی دی۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ ’’میں نے افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمار سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اُنھیں اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کو پاکستان کے دورے کے دعوت دی تاکہ ان معاملات پر بات چیت کی جا سکے اور رابطے میں ممکنہ فقدان کو دور کیا جا سکتے۔‘‘

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ صورت حال کو معمول پر لانے اور آمد و رفت کی بحالی کے لیے دونوں ملک آگے بڑھیں گے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ گیٹ پر تعمیر کا کام جاری رہے گا۔

اسلام آباد میں افغانستان کے سفیر حضرت عمر زخیلوال نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک پر اپنے صفحے پر کہا کہ پاکستانی حکام نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ جب تک کہ طورخم کے مسئلے کا بات چیت کے ذریعے حل نہیں نکل آتا اُس وقت تک اُن کے بقول متنازع گیٹ کی تعمیر کو روکا جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر اس مسئلے کا سفارتی حل نہیں نکلتا تو اُن کے سفیر رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم سرحد پر اتوار کی شب ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کے بعد سے صورت حال بدستور کشیدہ ہے۔ گزشتہ اتوار کے بعد سے کئی مرتبہ دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ ہو چکا ہے جس میں پاکستانی فوج کے ایک میجر کے علاوہ دو افغان اہلکار ہلاک جب کہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔

سرتاج عزیز نے بتایا کہ طورخم پر فائرنگ کے حالیہ تبادلے کے سبب سرحد کے قریب 180 خاندانوں کو محفوظ مقامات پر بھی منتقل کیا گیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا کہ دونوں ملک کشیدگی میں کمی کے لیے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔

’’دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ کسی نا کسی حتمی نتیجے پر پہنچیں گے تاکہ اس معاملے کو حل کیا جا سکے۔۔۔۔۔ (کشیدگی کا) یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں پر کوئی جنگ شروع ہو گئی ہے۔۔۔۔یہ جو تناؤ ہوتا ہے کئی ایسے ممالک ہیں جن کی مشترکہ سرحدیں ہیں وہاں پر یہ ہوتا رہتا ہو اور پھر وہ مذاکرات کے ساتھ اور ایک دوسرے سے رابطے کے ذریعے حل کرتے ہیں اور یہی چیز ہم نے بھی اپنائی ہے۔‘‘

نفیس ذکریا نے کہا کہ سرحد کی نگرانی کو موثر بنانے کے لیے طورخم کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دیگر مقامات پر بھی ایسے (گیٹ) یعنی دروازے بنائے جائیں گے۔

’’یقینی طور پر یہ اور جگہوں پر بھی بنیں گے اور بارڈر مینجمنٹ کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم طور خم پر بنیادی ڈھانچہ بنا لیں بنیادی طور پر بہت سارے آنے جانے کے راستے ہیں ان کو مرحلہ وار دیکھنا ہو گا۔‘‘

افغانستان کی سرحد پاکستان کے دو صوبوں سے متصل ہے جہاں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول 16 باقاعدہ گزرگاہیں ہیں لیکن ان میں سے نو پہلے ہی بند ہیں۔

افغان سرحد سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر الیاس بلور کہتے ہیں کہ یہ کشیدگی خاص طور پر دونوں ملکوں کے عوام کے لیے بہت نقصان دہ ہے اور اسے بڑھنے نہیں دینا چاہیے۔

افغان سرحد سے متصل دوسرے پاکستانی صوبے بلوچستان سے سینیٹر حاصل بزنجو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دوطرفہ تعلقات کو کسی صورت بھی خراب نہیں ہونے دینا چاہیے اور اس کے لیے دونوں ملکوں کو اقدام کرنا ہوں گے۔

گزشتہ ماہ بھی طورخم سرحد اس وجہ سے چار روز تک بند رہی تھی کہ پاکستان کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش کی افغان سکیورٹی فورسز نے مزاحمت کی تھی۔

دونوں اطراف سے روزانہ ہزاروں افراد روزانہ اس سرحدی گزر گاہ کو استعمال کرتے ہیں جب کہ دو طرفہ تجارت کے لیے بھی یہ راستہ استعمال ہوتا ہے۔

سرحد کی بندش سے مقامی لوگوں اور تجارتی شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

سرحد پار کرنے کے منتظر لوگ
سرحد پار کرنے کے منتظر لوگ

طورخم کے ایک مقامی رہائشی شاہ رحمٰن شنواری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دونوں ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا پرامن حل نکالیں کیونکہ جتنی بھی لڑائی ہو اس کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکلے گا۔

"دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں اطراف غریب لوگ پس رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جائے۔"

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس نے افغان حکام پر واضح کر دیا تھا کہ یکم جون سے کسی بھی افغان شہری کو بغیر مستند سفری دستاویزات کے پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا اور سرحد پر آمدورفت کو باقاعدہ نظم وضبط میں لانا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

XS
SM
MD
LG