کینیڈا کی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ کینیڈا اس بات میں پختہ یقین رکھتا ہے کہ ’’خواتین کے حقوق ہی دراصل انسانی حقوق ہیں‘‘۔ اُنھوں نے یہ بات نوجوان سعودی خاتون کے بارے میں کہی ہے، جنھیں اپنے ہی ملک میں زندگی کو خطرہ لاحق تھا۔
اس سے قبل ہفتے کی صبح براستہ سیئول، تھائی لینڈ سے ٹورنٹو آمد پر، وزیر خارجہ کرسٹیا فری لینڈ نے 18 برس کی رہف محمد القنون کو خوش آمدید کہا۔
کینیڈا القنون کو پناہ دے چکا ہے، جو زندگی کو خطرہ درپیش ہونے کے باعث اپنے خاندان سے بھاگ نکلی ہیں۔
القنون کی آمد کے فوری بعد، فری لینڈ نے ٹورنٹو ایئرپورٹ پر اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا سامنا بہت سی خواتین کو ہو سکتا ہے، جنھیں ایسی خطرناک صورت حال سے واسطہ پڑ سکتا ہے، چاہے وہ کینیڈا یا دنیا کے کسی دوسرے ملک سے تعلق رکھتی ہوں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ایک اکیلی خاتون یا بچی ایسی صورت حال میں ہو؛ اُن کا معاملہ کئی (معاملوں) پر بھاری ہے‘‘۔
فری لینڈ نے مزید کہا کہ القنون کو پناہ دینے کا اقدام ’’کینیڈا کی اُس وسیع پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد کینیڈا اور دنیا بھر کی خواتین کی حمایت کرنا ہے‘‘۔
اپنی آمد کے بعد، رہف القنون تھوڑی دیر کے لیے اخباری نمائندوں کے سامنے آئیں۔ لیکن فری لینڈ نے کہا کہ اُنھوں نے بات کرنے سے اجتناب کیا ہے، چونکہ ’’طویل سفر کے بعد وہ بہت تھک چکی ہیں‘‘، اور چاہتی ہیں کہ پہلے تازہ دم ہوجاؤں۔
اس سے قبل، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس بات کی تصدیق کی کہ اُن کے ملک نے القنون کو پناہ دی ہے، اور کہا کہ نوجوان کینیڈا میں رہنا چاہتی ہیں۔
متعدد دیگر ملک، جن میں آسٹریلیا شامل ہے، اقوام متحدہ کے دفتر برائے مہاجرین کے ساتھ بات کرچکے تھے اور القنون کو پناہ دینے پر رضامند تھے۔
ٹروڈو نے کہا کہ القنون کو پناہ دینے سے کینیڈا کو ’’خوشی ہوئی‘‘ ہے، چونکہ ’’کینیڈا وہ ملک ہے جو خوب جانتا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنا اور دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کو اہمیت دینا ترجیح کا حامل معاملہ ہے‘‘۔