کینیڈا نے رہف محمد القنون کو پناہ دینے کی پیش کش کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ کینیڈا کی حکومت کی طرف سے رہف محمد القنون کو پناہ دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "گزشتہ ہفتے تھائی لینڈ کی حکومت کی جانب سے رہف کو یو این ایچ سی آر کی طرف سے پناہ گزین کا سٹیٹس دلوانے کے لیے کی جانے والی تیز کوششوں اور کینیڈا کی حکومت کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر اسے اپنے ملک میں رہائش دینے اور اس کے سفر کا بندبست کرنے کے اقدامات اس معاملے کے کامیاب حل تک پہنچنے میں قلیدی اہمیت کے حامل رہے۔ رہف القنون آج تھائی لینڈ سے نکل چکی ہیں اور کینڈا کے سفر پر ہیں۔
تھائی لینڈ کے ایئرپورٹ کے اہلکاروں کے حوالے سے، خبر میں بتایا گیا ہے کہ 18 برس کی سعودی شہری، رہف القنون جمعے کی شام ’کورین ایئر فلائیٹ‘ کے ذریعے بینکاک سے سیئول روانہ ہوئیں، جہاں سے وہ ’کنیکٹنگ فلائیٹ‘ لے کر ٹورنٹو پہنچیں گی۔
رہف محمد القنون اپنے ہی خاندان سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر اُنھیں سعودی عرب واپس بھیجا گیا تو اُنھیں ڈر ہے کہ ’’مجھے مار دیا جائے گا‘‘۔
رہف کویت سے بینکاک پہنچی تھیں۔ تب ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے رہف کے معاملے پر آواز بلند کی۔
اس سے قبل، رہف نے اپنے آپ کو بینکاک ایئرپورٹ کے ہوٹل کے ایک کمرے میں بند کر لیا تھا، تاکہ اُنھیں اپنے ملک واپس بھیجنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
تھائی امیگریشن کے سربراہ، سراشے ہکپان نے اخباری نمائندوں کو بتایا ہے کہ ’’کینیڈا جانے کی خواہش کا اظہار اُنھوں نے خود ہی کیا تھا‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ رہف کی جانب سے اپنے والد اور بھائی سے ملنے سے انکار جاری رہا، جس پر، مایوس ہو کر وہ آج رات اپنے ملک لوٹ رہے ہیں۔
قنون ہفتے کو بینکاک پہنچی تھیں اور ابتدائی طور پر اُنھیں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم، اُنھوں نے بینکاک کے سوارن بھومی ایئرپورٹ کے ’ٹرانزٹ ایریا‘ سے ٹوئٹر پر میسج پوسٹ کرنا شروع کیے کہ میں’’کویت سے زندہ بھاگ نکلی ہوں‘‘؛ اور یہ کہ اگر اُنھیں ’’زبردستی سعودی عرب بھیجا گیا‘‘ تو اُن کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
کچھ ہی دیر کے اندر ’ہیش ٹیگ رہف‘کے ہینڈل پر ٹوئٹر پیغامات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں سرگرم کارکنان کا ایک نیٹ ورک شامل ہوا۔
تقریباً 48 گھنٹے ہوائی اڈے پر رہنے کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کی مداخلت پر اُنھیں ملک میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔
رائٹرز کی خبر کے مطابق، رہف کے معاملے پر سعودی عرب میں رائج سخت گیر سماجی قوانین کے بارے میں عالمی سطح پر دھیان مبذول ہوا، جس میں مرد سرپرست کی موجودگی کے بغیر کوئی خاتون سفر نہیں کرسکتی، جس کے بارے میں انسانی حقوق کی نتظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین بدسلوکی کرنے والے خاندانوں کے ہاتھوں قیدی بن کر رہ جاتی ہیں۔
سعودی لڑکی کا یہ معاملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب اکتوبر میں استنبول کے سعودی قونصل خانے میں جمال خشوگی کے قتل اور یمن میں لڑائی کے نتیجے میں انسانی بحران پیدا ہونے کے معاملوں پر مغربی اتحادیوں کی جانب سے سعودی عرب کی غیرمعمولی نگرانی کی جا رہی ہے۔
رہف کا ٹویٹر اکاونٹ بند ہو گیا
جمعے کے دِن دوپہر کے وقت رہف القنون نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ میں کہا ہے کہ ’’اچھی اور بری خبریں!‘‘۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا اکاؤنٹ ’آف لائن‘ ہو گیا۔
نورہ کے نام سے ٹوئٹر کی ایک صارف، جنھیں قنون اپنی دوست قرار دیتی رہی ہیں، ٹویٹ کیا کہ رہف القنون کو ’’موت کی دھمکیاں مل رہی تھیں، جس پر اُنھوں نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کردیا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ یہ ٹوئٹر ہی ہے جس کے نتیجے میں عالمی توجہ رہف القنون کی جانب مبذول ہوئی تھی۔