|
نئی دہلی -- بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے بھوپال میں واقع یونین کاربائیڈ فیکٹری کے گودام سے 377 ٹن زہریلا فضلا (کچرا) بدھ اور جمعرات کی رات میں دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
یہ زہریلا فضلہ سخت سیکورٹی انتظامات میں سیل بند 12 کنٹینرز سے بھوپال سے تقریباً 250 کلومیٹر دور دھار ضلع کے پیتم پور انڈسٹریل ایریا میں منتقل کیا گیا۔
یونین کاربائیڈ کارپوریشن ایک امریکی کمپنی ہے جو کیڑے مار کیمیکل اور اسی قسم کی دوسرے کیمیکلز بناتی ہے۔ 40 سال قبل 1984 میں دو اور تین دسمبر کی درمیانی شب میں اس فیکٹری سے زہریلی گیس لیک ہوئی تھی جو پورے شہر میں پھیل گئی تھی جس کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس فضلے کو وہاں سے ہٹانے میں 40 سال لگ گئے۔ اس کی وجہ انسانی حقوق اور ماحولیات کے کارکنوں کی مخالفت بتائی جا رہی ہے۔ 2005 میں فضلے کو گجرات منتقل کرنے کی تیاری کی گئی تھی لیکن شدید احتجاج کے بعد منتقلی کا فیصلہ منسوخ کر دیا گیا تھا۔
احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ کچرے کو کسی لینڈ فل میں نذرِ آتش کر کے زمین میں دفن کرنے سے زیر زمین پانی زہریلا ہو جائے گا اور اس سے ماحولیات کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
ان کے مطابق 2015 میں 10 ٹن فضلا تجرباتی بنیاد پر ضائع کیا گیا تھا جس کی وجہ سے زمین آلودہ ہوئی اور زیرِ زمین پانی اور قریب میں واقع پانی کے ذخائر بھی آلودہ ہو گئے تھے۔
فضلہ ٹھکانے لگانے کے معاملے پر تنازع
بھوپال گیس متاثرین کی ریلیف کے لیے سرگرم ’انٹرنیشنل کیمپین فار جسٹس ان بھوپال‘ کی سابق ذمہ دار رچنا ڈھینگرا کے مطابق یہ زہریلا فضلا جہاں بھی ڈالا جائے گا،رفتہ رفتہ وہ بھی بھوپال بن جائے گا۔
انھوں نے 2010 میں حکومت کی جانب سے کیے گئے ایک مطالعے کی روشنی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 11 لاکھ ٹن زہریلا مادہ زیرِ زمین پانی اور بھوپال کے ہزاروں شہریوں کو متاثر کر رہا ہے۔
بھوپال کے ایک سینئر صحافی اور تجزیہ کار عارف عزیز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ زہریلے کچرے کو یونین کاربائیڈ کی فیکٹری سے کہیں اور منتقل کرنے کے خلاف پہلے بھی احتجاج ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق بھوپال کے ایک شہری آلوک پرتاپ سنگھ نے 2003 میں عدالت میں ایک رٹ داخل کر کے کچرے کو کہیں اور منتقل کرنے کی اپیل کی تھی جس پر اب فیصلہ ہوا ہے۔
عدالتی حکم
یاد رہے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے تین دسمبر کو کچرا منتقل کرنے کے لیے انتظامیہ کو چار ہفتے کی مہلت دی تھی جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے 377 ٹن فضلہ منتقل کیا گیا۔ عدالت کے مطابق 40 سال گزرنے کے باوجود انتظامیہ پر جمود طاری ہے۔
عرف عزیز کے مطابق یونین کاربائیڈ کے کمپاونڈ میں 20 جگہوں پر ایسا ہی مادہ د فن ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 12 سال قبل جرمنی کی ڈی آئی زیڈ کمپنی نے 25 کروڑ روپے میں فضلہ منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
کمپنی نے بھوپال سے چھ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر فضلہ ضائع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ کمپنی راکھ کو گجرات کے شہر انکلیشور، مہاراشٹر کے شہر ناگپور اور جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ضائع کرتی۔ لیکن اس وقت ماحولیات کے کارکنوں کی مخالفت کے حوالے سے یہ کام کمپنی کو نہیں دیا گیا۔
ان کے مطابق اب کچرے کی راکھ کو کیپسول میں بھر کر زمین میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس پر 126 کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا۔ پیتم پور منتقل کیا جانے والا فضلہ 1200 ڈگری سیلسیس ہیٹ سے جلایا جائے گا تاکہ پانی کا بہاؤ بھی ہو تو کیپسول کے اندر راکھ پر کوئی اثر نہ پڑے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت بھی ماحولیات کے کارکنوں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ایک ریاستی وزیر وجے ورگییے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو کی ہدایت پر مظاہرین سے گفتگو کر رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ جو فضلہ پیتم پور منتقل کیا گیا ہے اس کو ضائع کرنے میں تین سے نو ماہ کا وقت لگے گا۔ لیکن صحت و ماحولیات کے کارکنوں نے نئے مقامات پر عوامی صحت کو لاحق ممکنہ خطرے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
فضلے سے ہونے والے نقصانات
’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹاکسیکولوجی ریسرچ‘ نے 2018 میں ایک تحقیق کی تھی جس کے مطابق فیکٹری میں پڑا ہوا فضلہ قرب و جوار کے ماحول میں سرایت کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے شہریوں کی صحت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ فیکٹری کے قریب 12 رہائشی علاقوں میں پانی میں دھات کے ذرات اورکیمیکل جذب ہو رہے ہیں۔
متاثرین کی ریلیف اور باز آبادکاری کے سرکاری محکمے ’بھوپال گیس ٹریجڈی ریلیف اینڈ ری ہیبلیشن ڈپارٹمنٹ‘ سے وابستہ سوتنتر کمار سنگھ نے خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ اس کے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں کہ فضلے کو نذرِ آتش کرنے کے بعد بچی ہوئی راکھ سے ہوا اور پانی آلودہ نہ ہوں۔
انھوں نے سماجی کارکنوں کے اس دعوے کو مسترد کر دیا کہ پیتم پور میں 2015 میں جو 10 ٹن فضلہ تجربے کے طور پر جلایا گیا تھا اس سے آس پار کی زمین اور زیر زمین پانی آلودہ ہو گیا۔
سوتنتر کمار سنگھ کے مطابق 2015 کے تجربے اور تمام اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعد ہی فضلہ ضائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دھار ضلع میں فضلہ منتقل کرنے کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ پیتم ہور میں اتوار کو بڑی تعداد میں لوگوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔
ادھر ایم جی ایم میڈیکل کالج اندور کے ایک سابق طالب علم اور شہر کے میئر اور بی جے پی رہنما پشیہ متر بھارگو نے اس منتقلی کے خلاف عدالت میں مفاد عامہ کی عذرداری داخل کی ہے۔
بڑا صنعتی حادثہ
بھوپال گیس المیے کو دنیا کی بدترین صنعتی تباہی کہا جا رہا ہے۔ تقریباً پانچ لاکھ افراد کے جسم میں سانس کے ذریعے گیس داخل ہوئی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق 15 سے 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً پانچ لاکھ افراد کو سانس کی بیماری، بینائی اور صحت کے دیگر مسائل پیدا ہوئے تھے۔ جب کہ پیدا ہونے والے بچے بھی صحت کے مختلف مسائل سے دوچار ہوئے۔
اس سانحے پر یونین کاربائیڈ کمپنی کے خلاف بھارتی عدالت میں مقدمہ قائم کیا گیا۔ طویل سماعت کے بعد عدالت نے 2010 میں فیکٹری کے سات سابق منیجرز کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان پر معمولی جرمانہ عائد کیا اور مختصر جیل کی سزا سنائی تھی۔
اس پر بہت سے متاثرین اور ان کے لیے تحریک چلانے والو ںکا کہنا تھا کہ ابھی ہمیں انصاف نہیں ملا ہے۔
قبل ازیں 1989 میں یونین کاربائیڈ کمپنی اور بھارتی حکومت کے مابین عدالت کے باہر ایک سمجھوتہ ہوا تھا جس کے تحت کمپنی نے 470 ملین ڈالر کے ہرجانے کی ادائیگی کی تھی۔
ایک دوسری امریکی کمپنی ’ڈاؤ کیمیکلز‘ نے جو یونین کاربائیڈ کو بھارت لائی تھی، کہا کہ تمام موجودہ اور آئندہ کے دعوؤں کا معاملہ حل ہو گیا ہے۔
بعد ازاں حکومت نے گیس متاثرین کے لیے کمپنی سے مزید معاوضے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جسے کورٹ نے 14 مارچ 2023 کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ حکومت نے یہ اپیل بہت تاخیر سے داخل کی ہے اور یہ کہ حکومت کے پاس معاوضے میں اضافے کا کوئی قانونی اصول نہیں ہے۔
فورم