|
امریکہ کی جانب سے عائد ہونے والی پابندیوں سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے بعد چین نے ردِ عمل میں کئی امریکی کمپنیوں کے خلاف اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار چین پر اضافی ٹیرف نافذ کرنے کی وارننگ دے چکے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ سے مقابلے کے لیے 2025 میں چین کیا اقدامات کرسکتا ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے دیکھنا ہوگا کہ اس کے پاس کون کون سے کارڈز ہیں؟
'چِپ وار'
دسمبر میں امریکہ نے چین کے سیمی کنڈکٹر اور چپس سے متعلق کاروبار اور سرگرمیوں پر اپنے تجارتی قوانین کی'سیکشن 301' کے تحت تحقیقات کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ان تحقیقات کا مقصد روایتی سیمی کنڈکٹر صنعت اور چپ بنانے میں برتری حاصل کرنے کے چین کے عزائم اور امریکی معیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لینا بتایا گیا ہے۔
میچیور پراسس چپس آٹو موبیل، صحت، انفراسٹرکچر، ایئرو اسپیس اور دفاعی صنعت سمیت متعدد شعبوں میں چپ استعمال کی جاتی ہیں۔
چین کی وزارتِ تجارت نے امریکہ کے سیکشن 301 کے تحت تحقیقات کے فیصلے کو یک طرفہ قرار دیا تھا اور اسے چپ انڈسٹری کی عالمی طلب و رسد میں خلل ڈالنے کی کوشش قرار دیا تھا۔
اپنے بیان میں چینی وزارتِ تجارت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سیکشن کے تحت ہونے والے اقدامات سے امریکی کمپنیوں کے مفادات بھی متاثر ہوں گے۔
چینی ٹیکنالوجی پر قابو رکھنے کے لیے چپ سازی پر اپنی برتری برقرار رکھنا امریکہ کی حکمتِ عملی کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس کے تحت جدید ترین چپس اور ان کی تیاری میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی، آلات اور دیگر ساز و سامان تک چین کی رسائی روکنا اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ روایتی اور لو اینڈ چپ کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری پر نظر رکھنا بھی امریکی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ان کے استعمال سے تیار کی گئی چینی مصنوعات کو عالمی منڈی میں بھاری تعداد میں آنے سے روکنا ہے۔
دو دسمبر کو امریکہ کے محکمۂ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی (بی آئی ایس) نے چینی برآمدات محدود کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔
ان اقدامات کا مقصد نیکسٹ جنریشن جدید ہتھیاروں، اے آئی اور جدید کمپیوٹنگ ٹیکنالوجیز میں چین کی پیداواری صلاحیت کو مزید کم کرنا ہے۔
امریکی محکمۂ تجارت نے ان اقدامات کے تحت 136 چینی کمپنیوں اور 20 اقسام کے سیمی کنڈکٹر، چپ اور سیمی کنڈکٹر کی تیاری میں استعمال ہونے والے آلات اور دیگر سافٹ ویئر ٹولز کو اپنی ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا ہے۔
سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی (سی این اے ایس) کی اسسٹنٹ فیلو روبی اسکینلن کا کہنا ہے کہ چپ ٹیکنالوجی میں چین کی صلاحیت محدود ہے۔ اس لیے وہ امریکی اقدامات پر ردِ عمل میں زیادہ کچھ نہیں کرسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی چپ بنانے کی ٹیکنالوجی میں چین سے آگے ہیں جب کہ چین جدید ترین چپس مقامی سطح پر تیار کرنے کے قابل نہیں ہوا ہے۔
پابندی کا جواب پابندی سے؟
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے جواب میں چین نے حال ہی میں کئی اقدامات کیے ہیں۔
چین کے سرکاری انگریزی اخبار ’چائنا ڈیلی‘ میں 25 دسمبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق جوابی اقدمات کے طور پر دفاع اور اہم ترین ٹیکنالوجیز میں استعمال ہونے والی معدنیات اور دھاتوں کی برآمدات پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
امریکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق کنڈکٹرز، برقی آلات وغیرہ میں استعمال ہونے والی دھات گیلیم کے دنیا بھر کے ذخائر کا 68 فی صد چین کے پاس ہے۔ یہ دھات 90 فی صد جدید آلات کی تیاری میں کسی نہ کسی طریقے سے استعمال ہوتی ہے۔
اسی طرح سیمی کنڈکٹر میں استعمال ہونے والے کیمائی مواد جرمینیم کے دنیا میں موجود 86000 ٹن کے ذخائر میں سے امریکہ اور چین کے پاس بالترتیب 45 اور 41 فی صد حصہ ہے۔
دنیا کو جرمینیم کی سپلائی کا 68 فی صد چین سے آتا ہے جب کہ گریفائٹ کی عالمی پیداوار میں چین کا حصہ 77 فی صد ہے۔
یہ پہلی بار ہوگا کہ چین کی وزارتِ تجارت نے ان اہم ترین معدنیات اور دھاتوں کی برآمد کم کرنے اور اس پر مختلف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
امریکی جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' میں 30 دسمبر کو شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق اہم معدنیات اور دھاتوں پر چین کی پابندیوں سے عالمی منڈیوں میں ان کی قیمتوں پر دباؤ بڑھا ہے لیکن ساتھ ہی امریکی خریداروں تک ان کی رسائی آسان بنانے کے لیے بین الاقومی سطح پر سرمایہ کاری میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین دنیا میں دھاتیں اور معدنیات فراہم کرنے والا بڑا سپلائر ضرور ہے لیکن ایسا کرنے والا واحد ملک نہیں ہے۔
امریکہ کے محکمۂ شماریات کے مطابق گزشتہ برس امریکہ نے چین کے مقابلے میں کینیڈا سے غیر پراسس گیلیم کی زیادہ مقدار درآمد کی تھی جب کہ سب سے زیادہ مقدار میں پراسیسڈ جرمینیم جرمنی سے درآمد کیا تھا۔
انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر(آئی ٹی سی) کے ڈیٹا کے مطابق بھی معدنیات کے حصول کے لیے امریکہ کا چین پر انحصار کم ہوا ہے۔
یو ایس جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسٹریلیا اور امریکہ میں دھاتوں اور معدنیات کی پیداوار سے متعلق صلاحیت بڑھانے کے بعد عالمی منڈی میں چین کی سپلائی کم ہوئی ہے۔ 2022 میں عالمی سطح پر چین کی معدنیات اور دھاتوں کی سپلائی میں 70 فی صد کمی واقع ہوئی تھی۔
تجارتی امور کے ماہر اسکاٹ لنسیکوم کے مطابق معدنیات اور دھاتوں سے متعلق چین کو حاصل ایڈوانٹج مستقل نوعیت کا نہیں ہے۔
وی او اے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "چین کو شارٹ ٹرم میں قیمتیں بڑھنے سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ لیکن لانگ ٹرم میں چین رفتہ رفتہ مارکیٹ میں اپنا حصہ کھو سکتا ہے کیوں کہ دیگر ذرائع سے دھاتوں کا حصول شروع ہوتے ہی ان کی قیمتیں گر جائیں گی۔"
امریکی کمپنیوں پر دباؤ کیسا آپشن ہے؟
امریکہ کے ساتھ ٹیکنالوجی کی اس جنگ میں برتری کے لیے چین امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی بھی جاری رکھ سکتا ہے۔
گزشتہ ماہ جب امریکہ نے چپ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے چین پر پابندیاں عائد کی تھیں تو چین نے بھی جواب میں امریکہ کی چپ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی Nvidia کے خلاف اپنے اینٹی ٹرسٹ قوانین کے تحت تحقیقات شروع کردی تھیں۔
سینٹر فار نیو امریکن سیکیورٹی کی اسسٹنٹ فیلو روبی اسکینلن کے مطابق اینٹی ٹرسٹ قوانین امریکہ کے خلاف چین کا بڑا ہتھیار ہوسکتے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ ٹرمپ کے پہلے دور کی طرح اس بار بھی چین کے ٹیرفس میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے جواب کے لیے چین کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں۔ چین ماضی کی طرح صرف زرعی اجناس اور پھل وغیرہ کی درآمد روک سکتا ہے۔
تاہم وال اسٹریٹ جرنل کا کہنا ہے کہ چین کا امریکی کمپنیوں کے خلاف زیادہ سخت اقدامات کا امکان بہت کم ہے۔ کیوں کہ ریئل اسٹیٹ بحران کی وجہ سے چین کی معیشت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے اور اگر امریکی کمپنیوں کو زیادہ تنگ کیا جاتا ہے تو وہ چین سے اپنا سرمایہ نکال لیں گی جس سے دیگر کمپنیوں کی بھی حوصلہ شکنی ہو گی۔
کرنسی کی قدر میں کمی
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اضافی ٹیرفس کی صورت میں چین اپنی کرنسی یوان کی قدر کم کرسکتا ہے۔ یوان کی قیمت کم ہونے سے امریکہ کے لیے چینی برآمدات کی قیمت کم ہوسکتی ہے اور اضافی ٹیرف کے اثر کو بھی کسی حد تک زائل کیا جاسکتا ہے۔
تاہم وال اسٹریٹ کے تجزیے کے مطابق چینی کرنسی کی قدر میں کمی سے سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہونے میں تیزی آسکتی ہے اور موجودہ حالات میں چین ایسا نہیں دیکھنا چاہتا۔
معیشت کے ماہرین کے مطابق چینی حکومت کرنسی کی قدر پر بہت محدود سطح کا کنٹرول برداشت کرسکتی ہے لیکن اس میں تیزی کے ساتھ یا بڑی کمی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
جریدے کے مطابق یہ اقدام چین کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا اور امریکہ کے پاس اس حکمتِ عملی سے نمٹنے کے لیے بھی کئی ذرائع موجود ہیں۔
فورم