افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے مرکزی قصبے وانا اور نواحی علاقوں میں ایک مرتبہ پھر خوشی یا شادی بیاہ کے موقع پر موسیقی سننے اور رقص پر پابندی عائدکردی گئی ہے۔
قبائلی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چند روز قبل وانا کے مرکزی بازار اور عام قبائلیوں میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا گیا تھا جس کے متن کا اعلان مساجد کے لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے بھی کیا گیا۔
پمفلٹ میں موسیقی اور رقص کے علاوہ منشیات استعمال کرنے اور قومی روایات کے منافی خوشی کا برملا اظہار کرنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔
مذکورہ پمفلٹ کے ذریعے خواتین پر محرم کے بغیر بازار، ڈاکٹروں کے پاس یا روحانی علاج کی غرض سے جانے پر بھی پابندی ہوگی۔
پمفلٹ کی تحریر کے مطابق ان فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قبائلی روایات کے مطابق سزا دی جائے گی۔
جنوبی وزیرستان کے انتظامیہ میں شامل بعض اہلکاروں نے وائس آف امریکہ کے رابطہ کرنے پر موسیقی، رقص، قبائلی روایات کے منافی خوشی منانے اور خواتین کے بغیر محرم بازار، ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس جانے پر پابندی کی تصدیق کی ہے۔
تاہم حکام نے اسے ایک غیر قانونی فعل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ قبائلی رہنماؤں کا اس پابندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس سے قبل یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ یہ پابندی حکومت کے حامی قبائلی عمائدین نے عائد کی تھی۔
جنوبی وزیرستان میں مارچ 2007ء سے حکومت کے حامی عسکریت پسندوں نے امن وامان برقرار رکھنے اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے امن لشکر اور کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں۔
جنوبی وزیرستان کی امن کمیٹی اور لشکر کے بانی سربراہ مولوی نذیر کو چند سال امریکی ڈرون طیارے نے میزائل حملے کا نشانہ بنایا تھا جس میں وہ مارے گئے تھے۔
تاہم مولوی نذیر کے بعد اب ایک اور قبائلی رہنما بہاول خان وزیر المعروف صلاح الدین ایوبی امن لشکر اور کمیٹیوں کی سربراہی کررہے ہیں۔
قبائلی ذرائع نے بتایا ہے کہ چنددن قبل موسیقی وغیرہ پر عائد کی جانے والی ان پابندیوں پرعمل درآمد بھی اسی امن لشکر کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔