بھارت کی شمال مشرقی ریاست تری پورہ کی پولیس نے گزشتہ ماہ مبینہ مسلم مخالف تشدد کا جائزہ لینے کے لیے دہلی سے جانے والی ٹیم کے دو ارکان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
گزشتہ ماہ ہندو تنظیموں نے تری پورہ کے متعدد مقامات پر ریلیاں نکالی تھیں جن کے دوران مبینہ طور پر مسلمان شہریوں اور ان کی دکانوں، مکانات اور مساجد پر حملے کیے گئے تھے۔
بنگلہ دیش میں ’درگا پوجا‘ کے دوران مبینہ طور پر قرآن مجید کی بے حرمتی کے بعد وہاں ہندوؤں پر مبینہ تشدد کیا گیا تھا جس کے ردِ عمل میں بھارت میں یہ احتجاجی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔
تری پورہ میں ہونے والے ان پُر تشدد واقعات کا جائزہ لینے کے لیے دہلی کے وکلا کی چار رکنی ٹیم نے متاثرہ مقامات کا دورہ کیا اور اپنی ’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘ جاری کی تھی۔ یہ رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم میں شامل سپریم کورٹ کے دو وکلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس کا الزام ہے کہ ٹیم کے دو ارکان ایڈووکیٹ انصار اندوری اور ایڈووکیٹ مکیش نے سوشل میڈیا پر قابلِ اعتراض مواد پوسٹ کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے خلاف مختلف طبقوں کے درمیان مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر منافرت پیدا کرنے، غلط اطلاعات پھیلانے اور نقص امن کے اندیشے سے متعلقہ قانونی دفعات کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔
پولیس نے دونوں وکلا کو 10 نومبر کو مغربی اگرتلہ کے پولیس اسٹیشن میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے اور پولیس کے مطابق انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے بیانات اور تبصرے ہٹانے کی ہدایت کی ہے۔
تری پورہ پولیس کا کہنا ہے کہ ریاست میں حالات پر امن ہیں۔ البتہ پولیس نے سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر اشتعال انگیز مواد پوسٹ کرنے پر 71 افراد کے خلاف پانچ مقدمات قائم کیے ہیں۔
وکلا کون ہیں؟
ایڈووکیٹ انصار انسانی حقوق کی تنظیم ’نیشنل کنفیڈریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائزیشن‘ سے وابستہ ہیں جب کہ مکیش انسانی حقوق کی ایک معروف تنظیم ’پیپلز یونین فار سول لبرٹیز‘ کے وکیل ہیں۔
وکلا کی ایک تنظیم ’آل انڈیا لائرز ایسوسی ایشن فار جسٹس‘ نے پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے اور اسے سچائی کو دبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کیا ہے؟
وکلا کی اس ٹیم نے تری پورہ سے واپسی کی بعد پریس کلب آف انڈیا دہلی میں ایک نیوز کانفرنس میں اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔
اس ٹیم نے بتایا تھا کہ وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی ریلیوں کے دوران 12 مسجدوں، مسلمانوں کی 12 دکانوں اور تین مکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے کئی مسجدوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ کی غیر ذمے داری، انتہاپسند تنظیموں اور سیاسی مفادات رکھنے والے عناصر کی وجہ سے پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق تشدد برپا ہونے سے ایک روز قبل ریاست میں جمعیت علماء ہند نے وزیر اعلیٰ پبلب کمار دیب کے نام ایک خط میں تشدد کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ اس کے باوجود انتظامیہ کی جانب سے کوئی احتیاطی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
’حکومت شاید ناراض ہوگئی‘
انصار اندوری ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ہم لوگوں نے جمہوریت کے تحفظ کی خاطر حقائق کا پتا لگانے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے دو نومبر کو اپنی رپورٹ جاری کی اور تین نومبر کو ہمارے خلاف کیس درج کر لیا گیا۔
انصار ایڈووکیٹ کے بقول حکومت جو کچھ چھپانا چاہتی تھی ہم نے اسے بے نقاب کر دیا جس کی وجہ سے شاید حکومت ناراض ہو گئی۔
انھوں نے بتایا کہ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ہے بلکہ ہم نے اپنے آئینی حق کا استعمال کیا ہے اور آئینی ذمے داری ادا کی ہے۔ لہٰذا ہم اس معاملے کی جانچ میں پولیس کے ساتھ تعاون کریں گے۔
ان کے مطابق اگر وہاں کی پولیس کو ہم لوگوں کے بارے میں کوئی غلط فہمی ہے تو ہم اسے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
پولیس پر الزامات
انصار ایڈووکیٹ کے مطابق پولیس کی سرپرستی میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں پانچ پانچ اور دس دس ہزار افراد نے حصہ لیا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وشو ہندو پریشد کے تری پورہ کے صدر کا بیان ہے کہ 51 مقامات پر ریلیاں نکالی گئیں۔
انصار ایڈووکیٹ کے مطابق البتہ پرتشدد واقعات صرف دس گیارہ مقامات پر ہوئے ہیں۔ 26 اکتوبر کو پانی ساگر کے علاقے میں جو ریلی نکالی گئی تھی اس میں زیادہ تشدد ہوا تھا۔ اس کے بعد کوئی ریلی نہیں نکالی گئی۔
ان کے مطابق اس ریلی کے شرکا جے سی بی مشین لے کر آئے تھے اور اس سے مکانوں اور دکانوں کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے تشدد برپا کرنے والوں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ بلکہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی، جنھوں نے تشدد کی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی وجہ سے پولیس نے 71 افراد کے خلاف پانچ مقدمات درج کیے ہیں جن میں غالباً ہم لوگ بھی شامل ہیں۔
ان کے بقول کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے جن میں کچھ مقامی ہیں اور کچھ باہر کے ایسے لوگ ہیں جو حالات کا جائزہ لینے کے لیے متاثرہ علاقوں میں گئے ہوئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس نے مقامی مسلمانوں کی شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی اور اس معاملے کی کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
انصار ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انھیں 10 نومبر کو اگرتلہ پولیس تھانے میں طلب کیا گیا ہے لیکن وہ یو اے پی اے قانون کے ماہرین سے مشورہ کر رہے ہیں۔ سوچ بچار کے بعد جو مناسب ہو گا وہی قدم اٹھائیں گے۔
سیاسی پہلو؟
ان کا کہنا ہے کہ تری پورہ کے بعض اضلاع میں 24 نومبر کو بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان انتخابات میں بی جے پی کے ووٹ بینک کو بڑھانے کے لیے ریاست میں فرقہ واریت کا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی اور اسی لیے مسلمانوں کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔
خیال رہے کہ بعض دیگر ذرائع نے بھی اس قسم کے الزامات عائد کیے ہیں۔ لیکن بی جے پی یا کسی اور سیاسی جماعت کی طرف سے اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں آئی ہے۔
جب کہ ایڈووکیٹ مکیش کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں نے 30 اکتوبر سے یکم نومبر تک تری پورہ کا دورہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ تشدد کیوں برپا ہوا اور لوگوں کا کتنا نقصان ہوا۔
ان کے مطابق ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے جو کچھ دیکھا اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔ ہم نے اس معاملے پر دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کی اور ایک فیس بک لائیو کیا۔ میرا خیال ہے کہ پولیس کو فیس بک لائیو پر اعتراض ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کا نوٹس
انسانی حقوق کے قومی کمیشن (این ایچ آر سی) نے تری پورہ کے چیف سیکرٹری کمار آلوک اور ڈائریکٹر جنرل آف پولیس وی ایس یادو کے نام نوٹس جاری کر کے کارروائی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ یہ رپورٹ 10 نومبر تک پیش کی جائے گی۔
کمیشن نے یہ نوٹس ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کے ترجمان ساکیت گوکھلے کی شکایت پر جاری کیا ہے۔
اس شکایت میں کہا گیا ہے کہ وشو ہندو پریشد نے 26 نومبر کو شمالی تری پورہ ضلع میں ریلی نکالی تھی جس میں مسلمانوں کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا گیا اور دو دکانیں بھی جلائی گئیں۔
ہائی کورٹ کی از خود کارروائی
تری پورہ ہائی کورٹ نے تشدد سے متعلق رپورٹس پر از خود کارروائی کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو 10 نومبر تک تشدد پر قابو پانے اور آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے اقدامات سے متعلق رپورٹ طلب کر لی ہے۔
ریاست کے ایڈووکیٹ جنرل ایس ایس ڈے نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور قصور واروں کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں۔
ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ تشدد کے معاملے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔ حکومت کے مطابق اس وقت حالات پر امن ہیں۔