امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے پیر کے روز کہا ہے کہ امریکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیوں کے بارے میں اپنی پوزیشن تبدیل کر رہا ہے اور ایسا کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کے 1978 کے قانونی مشورے کو رد کر رہا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں سول بستیوں کی تعمیر ’’بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی‘‘۔
ان کا یہ اعلان ٹرمپ انتظامیہ کا ایک ایسا حالیہ ترین اقدام ہے جس سے فلسطینیوں کے اپنی مملکت کے قیام کا دعویٰ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی برادری عمومی طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی اور چوتھے جنیوا کنونشن کی ایک شق کی خلاف ورزی تصور کرتی ہے جس میں قابض قوتوں کو مقبوضہ علاقوں میں اپنی آبادی منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، کیونکہ اسرائیلی شہریوں کو ان بستیوں میں منتقل نہیں کیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ پومپیو کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اب اوباما انتظامیہ کے نظریے سے الگ ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قانونی جنگ کے تناظر میں تمام فریقین کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ انتظامیہ سابق صدر ریگن کے نظریات سے اتفاق کرتی ہے۔ مغربی کنارے پر اسرائیلی شہریوں کی آبادکاری بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
امریکہ کی سرکاری پالیسی اب تک محکمہ خارجہ کی طرف سے 1978 میں دیے گئے قانونی مشورے پر مبنی رہی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ اس سے پہلے کسی صدر نے اس پالیسی سے انحراف نہیں کیا۔ تاہم، تمام صدور نے ان بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دینے سے اجتناب کیا۔ وہ اس اقدام کو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیتے تھے۔
وزیر خارجہ پومپیو کا کہنا تھا کہ شہری بستیوں کی تعمیر کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دینے سے قیام امن کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
ان کے مطابق، اس تنازعے کا عدالتی حل کبھی ممکن نہیں ہو گا اور اس بارے میں بحث سے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، امن کا مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ پومپیو کہتے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ ہےجو صرف اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ قیام امن میں مدد دینے کے عہد پر قائم ہے اور وہ خود اس سلسلے میں ہر ممکن مدد دینے کیلئے تیار ہیں۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد فلسطینی امریکی مصالحت کو قبول کرنے سے مسلسل انکار کرتے آئے ہیں۔ فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم کو ان کی مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی کا جھکاؤ اسرائیل کی جانب ہے۔
امریکہ کے ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار برنی سینڈرز نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کا قیام غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ اپنے انتہا پسند حامیوں کی طرف جھکتے ہوئے سفارتکاری کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ادھر یورپین یونین نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشرقی یروشلم سمیت مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ ان بستیوں کی تعمیر کے تمام اقدامات فوری طور پر روک دیے جائیں۔
دوسری جانب، فلسطین کے اعلیٰ مذاکرات کار صائب اراکات نے امریکی وزیرِ خارجہ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کا فیصلہ عالمی استحکام، سکیورٹی اور امن کے لیے خطرہ ہے۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے مغربی کنارے سے متعلق مائیک پومپیو کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی "تاریخی غلطی درست کرنے کی جانب" اہم قدم ہے۔ انہوں نے دیگر ملکوں سے بھی اپیل کی کہ وہ بھی امریکہ کی طرح اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے کا تنازع ہے کیا؟
مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودیوں کی آبادکاری اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عشروں پُرانا تنازع ہے۔
اسرائیل نے 1967ء میں مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد سے وہ وہاں 140 بستیاں بسا چکا ہے، جہاں کم از کم چھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت اسرائیل کی اس آباد کاری کو غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل عالمی برادری کے اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔
فلسطین کا مطالبہ ہے کہ مغربی کنارے سے یہودی بستیاں ختم کی جائیں کیوں کہ مغربی کنارے کے بغیر آزاد فلسطین کے قیام کا خواب ممکن نہیں۔
یہودی بستیوں سے متعلق امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کی حکومت 1978 میں اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کا قیام بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے۔
البتہ، 1981 میں اس وقت کے صدر رونالڈ ریگن نے کہا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ بستیاں فطری طور پر غیر قانونی ہیں۔ لیکن، انہوں نے بھی ان بستیوں کو "غیر ضروری اشتعال انگیزی" قرار دیا تھا۔
صدر رونالڈ ریگن کے بعد آنے والی امریکہ کی ہر حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں 'ناجائز' ہیں لیکن 'غیر قانونی' نہیں۔