طالبان کے ساتھ دوحہ میں دس ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات سے اچانک نکلنے کے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر بعض ماہرین اب یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ امریکی صدر’ افغان بریگزٹ‘‘ کر سکتے ہیں، مطلب افغانستان سے فوجیں بنا کسی معاہدے کے اچانک نکال سکتے ہیں۔
تاہم بعض ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجیں نکال کر اپنی بالادستی کبھی ختم نہیں کرنا چاہیں گے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر مارون وائن بام نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی اچانک معطلی، صدر ٹرمپ کی غیر متوقع فیصلہ سازی کا حصہ ہے۔
اُن کے بقول یہ بالکل غیر یقینی فیصلہ تھا۔ اس سے نہیں لگتا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں یا تھنک ٹینک کے ماہرین کی آراء کے پیش نظر مذاکرات معطل کیے ہوں۔
'بہرحال مجوزہ معاہدے کی جتنی تفصیل سامنے آئی ہے اس کے مطابق امریکہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کو یقینی نہ بنا سکا اور یہ معاہدہ کسی جنگ بندی کو بھی یقینی نہیں بناتا۔ صرف امریکی انخلا کے راستوں کو محفوظ بناتا ہے، باقی معاملات افغانوں پر چھوڑ دیے گئے کہ وہ خود جنگ بندی میں توسیع کریں۔'
مارون وائن بام کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ بہرحال طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے خواہش مند تھے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں اپنے لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ میں نے اپنے فوجیوں کو باحفاظت افغانستان سے نکال لیا ہے اور ایک طویل جنگ کو انجام تک پہنچایا ہے۔
وائن بام کے مطابق صدر ٹرمپ اب بھی یہی چاہیں گے کہ جنگ ختم ہو۔ تاہم فریقین کے درمیان مذاکرات معطل ہوئے ہیں، ختم نہیں۔ طالبان اور امریکہ اب بھی کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔
مارون وائن بام کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے لیے (ان کے الفاظ میں)’’ افغان بریگزٹ‘‘ بھی کر سکتے ہیں۔
ان کے بقول صدر ٹرمپ اب بھی کسی معاہدے کا خیرمقدم کریں گے تاکہ وہ اسے اپنی انتخابی مہم میں لے جا سکیں۔ وہ سیاسی برتری کی بنا پر کسی معاہدے کے بغیر ہی افغانستان سے فوجی نکال بھی سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو ہم اسے 'افغان بریگزٹ' کہیں گے۔ تاہم اس کے اثرات سنگین ہوں گے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جلیل عباس جیلانی ان دنوں واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا خاتمہ تمام فریقوں اور خطے کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ان کے بقول پاکستان نے افغانستان میں امن عمل میں بہت کوششیں کی ہیں۔ ناکامی کی صورت میں طالبان کے علاوہ مختلف عسکریت پسند گروپ فعال ہو جائیں گے، جیسے داعش، القاعدہ وغیرہ اور اس کا پاکستان، ایران اور پورے خطے کو بہت نقصان ہوگا۔
سینٹر فار گلوبل پالیسی سے وابستہ تجزیہ کار کامران بخاری نے اس امکان کو رد کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کسی معاہدے کے بغیر افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن میں دو جماعتی سیاست کا پارہ عروج پر ہے۔ صدر ٹرمپ ایسا بالکل نہیں کریں گے۔ وہ غلطیاں ضرور کرتے ہیں خاص طور پر ٹوئٹر پر اچانک کچھ بھی بول دینے سے۔ لیکن ایسا نہیں کہ ان کے پاس کوئی لائحہ عمل (اسٹریٹجی) نہیں ہے۔