جمعے کے روز امریکہ اور چین کے راہنماؤں نے علاقائی کاروباری راہنماؤں کے لیے الگ الگ تقارير میں ایشیا کے لیے تجارت کی سمت کے بارے میں نمایاں طور پر متضاد خیالات پیش کیے۔
ایشیا پیسیفک خطے کی ممتاز کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے داروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے حاضرین کو بتایا کہ وہ خطے میں کسی بھی ملک کے ساتھ براہ راست تجارتي معاہدوں کے لیے تیار ہیں۔ لیکن انہوں نے پیسیفک کے بارہ ملکوں کے درمیان شراکت داری جیسے کثیر ملکی معاہدوں کو سختی سے مسترد کر دیا جسے ان کی انتظامیہ نے اپنے ابتدائی دنوں میں فوری طور پر ترک کر دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایشیا اور پیسفک کے کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ دو طرفہ تجارتي معاہدے کروں گا جو ہمارا شراکت دار بننا چاہتا ہے اور جو منصفانہ اور باہمی تجارت کے اصولوں کی پاسداری کرے گا ۔ ہم اب ان بڑے معاہدوں میں شامل نہیں ہوں گے جو ہمارے ہاتھ باندھ دیتے ہیں اور ہمارے اقتدار اعلی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان معاہدوں کے بامعنی نفاذ کو عملی طورپر نا ممکن بنا دیتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے اس بارے میں افسوس کا اظہار کیا کہ ماضی میں جب ان کے ملک نے منڈیوں کی رکاوٹیں کم کیں، اور دوسرے ملکوں نے امریکہ کے لیے اپنی منڈیاں نہیں کھولیں ۔ تاہم صدر ٹرمپ نے انتباہ کیا کہ اب سے امریکہ یہ توقع کرے گا کہ ہمارے شراکت دار دیانت داری سے اصولوں کی پیروی کریں گے۔
ڈاناگ میں صدر ٹرمپ کے بعد چینی صدر زی جن پنگ اسٹیج پر آئے، جن کے ملک کی ترقی کی زیادہ تر وجہ بڑے پیمانے کی سرکاری منصوبہ سازی رہی ہے۔
زی نے کثیر فریقی نظریے کو اپناتے ہوئے ایشیا پیسیفک کے ایک آزاد تجارتي علاقے کے لیے حمایت کی خصوصي اپیل کی جو علاقائی اور دو طرفہ اقتصادی معاہدوں کو ہم آہنگ کرے۔
چین کو TPP معاہدے سے الگ رکھا گیا تھا جس کی قیادت امریکہ اور جاپان نے کی تھی اور جس کا زیادہ تر مقصد چین کے حکمت عملی کے عزائم کے خلاف ایک رکاوٹ کھڑی کرنا تھا۔
زی نے عالمگیریت کو ایک ناقابل تنسیخ رجحان قرار دیا لیکن کہا کہ دنیا کو اسے مزید متوازن بنانے اور اس میں سب کی شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
ایک ترجمان کے توسط سے بات کرتے ہوئے چین کے صدر زی جن پنگ نے کہا کہ اس وقت اقتصادی عالمگیریت کی جانب پیش رفت کو مسائل درپیش ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس میں سب کی مناسب شمولیت نہیں ہے، اس لیے یہ یقینی بنانے کے لیے مزید کوشش کی ضرورت ہے کہ مختلف ملک اور مختلف طبقہ زندگی کے لوگ، سبھی ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکیں اور یہ خوبصورت خیال حقیقت بن جائے جسے حقیقت بننے میں ابھی وقت درکار رہے۔
ڈا نانگ میں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اورافواج کے راہنماؤں کی جانب سے متضاد خیالات کا اظہار اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ آیا اس مسابقتی انداز کے نتیجے میں امریکہ اور چین کے درمیان آخر کار کوئی تنازع پیدا ہو گا یا وہ آخر کار پر امن بقائے باہمی کا کوئی راستہ تلاش کر لیں گے۔