امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سیاسی حریف جو بائیڈن نے ایغور مسلمانوں پر مبینہ مظالم پر چین پر تنقید کی ہے۔
صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے ایک ترجمان نے چینی حکومت کے ایغور مسلمانوں کو حراست میں رکھنے کے واقعات کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی سب سے بڑی قید قرار دیا ہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بائیڈن کی انتخابی مہم نے ایغور مسلمانوں کے خلاف مظالم کو نسل کشی قرار دیا۔
ان کی مہم کے مطابق بائیڈن کہتے ہیں کہ ایغور مسلمانوں اور دوسری اقلیتی براردریوں کے خلاف چینی حکومت کا ناقابل بیان جبر نسل کشی ہے اور وہ اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اگرچہ ایغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کی سختیوں کو اب تک نسل کشی قرار نہیں دیا لیکن قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان اولیٹ نے بیجنگ کے برتاؤ کو خوفناک قرار دیا ہے۔
ترجمان نے خواتین کے حقوق کی پامالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین ایغور خواتین کو اسقاط حمل پر مجبور کرنے، بچوں کی پیدائش کے حق سے محروم کرنے، جبری مشقت کروانے، انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے، دوران حراست ان سے جنسی تشدد اور جبری شادی کرانے جیسے سنگین مظالم کا مرتکب ہوا ہے۔
بائیڈن کی انتخابی مہم نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا صدر ٹرمپ ایغور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ان اقدامات پر کچھ کریں گے؟
اس کے جواب میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ ہر انسانی جان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہوں نے ایغور مسلمانوں سے ناروا سلوک کے معاملے پر چین کے خلاف اہم اقدامات کیے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک سینئر اہل کار کے مطابق امریکہ نے ایغور آبادی کے صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر چینی حکام کے خلاف کئی پاپندیاں عائد کی ہیں۔