صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ انہیں ملک بھر میں کرونا وائرس کے سلسلے میں جاری لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
کرونا وائرس کے سلسلے میں یومیہ بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت معیشت کا پہیہ دوبارہ چلانے کے ایک منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے، جو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں کے سبب انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ اس مہینے کی 30 تاریخ تک یہ لاک ڈاؤن طے ہے اور اب یکم مئی سے اسے کھولنے کا اشارہ دیا جا رہا ہے۔
جب نامہ نگاروں نے یہ سوال کیا آیا ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ریاستوں میں گھروں تک محدود رہنے کے ریاستی حکومتوں کے حکم کو معطل کرکے لاک ڈاؤن کو ختم کرسکیں، تو انہوں نے کہا کہ جب کوئی امریکہ کا صدر بنتا ہے تو اس کا اختیار مطلق ہوتا ہے اور گورنرز یہ بات جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ریاستوں کے ساتھ ملکر کام کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے قیام کی بنیادی دستاویز میں ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت انہیں یہ اختیار حاصل ہے۔
تاہم، قانونی ماہرین کی اس بارے میں رائے مختلف ہے کہ صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی ریاست یا شہر میں عوامی صحت کے سلسلے میں مقامی حکومت کی لگائی ہوئی پابندی کو اٹھا سکیں۔
سئیاٹل یونیورسٹی میں اسکول آف لا کے پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود سے جب اس سلسلے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ امریکہ کے آئینی ڈھانچے کے اندر ریاست کے تینوں ستونوں میں سے کسی بھی ایک ستون کو کوئی مطلق اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی بات کے پیش نظر، آئین میں منطقی توازن اختیارات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر کے ایمرجنسی اختیارات کے بارے میں بعض میموز ہیں جنہیں کانگریس سے منظور کرانا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ اگر صدر نے یہ اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کی جو وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں حاصل ہیں اور بعض ریاستوں یا شہروں نے اپنے حالات کے پیش نظر، کیونکہ ہر ریاست اور شہر کے حالات کرونا وائرس کے حوالے سے مختلف ہیں، ان احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا تو ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو سکتا کے۔
اور یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ کوئی نیا بحران پیدا ہونے دیا جائے یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی جائے۔ یہ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ سب مل کر موجودہ صورت حال سے نمٹنے کی جدوجہد کریں۔
ریپبلکن سرگرم کارکن ساجد تارڑ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر کو سپریم اتھارٹی حاصل ہے اور ان کے ایمرجنسی اختیارات وسیع ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر کے پیش نظر ملکی حالات خاص طور پر ملک کی معاشی صورت حال ہے جسے وہ راہ پر رکھنا چاہتے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ اقتصادی نمو پر زیادہ اثرات نہ پڑنے پائیں۔ اور ڈیمو کریٹس ان حالات پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں کہا کہ اس سب سے قطع نظر ریاستوں کو صدر کے اقدامات کو ماننے پر آمادہ کیا جاسکتا ہے اور ان کے ساتھ مل کر کام کیا جاسکتا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے متحرک کارکن اور دو بار کے نیشنل ڈیلی گیٹ ظفر طاہر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹس تو کیا اس وقت کوئی بھی سیاست نہیں کر رہا، کیونکہ یہ سیاست کا وقت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا آئین حکومت کی کسی بھی شاخ کو کوئی مطلق اختیار نہیں دیتا ہے۔ دوسرے یہ بات کہہ کر صدر خود اپنی ہی پہلے کہی ہوئی بات کی نفی کر رہے ہیں، کیونکہ جب اس وبا کے آغاز پر بعض گورنر لاک ڈاؤن کے لئے تیار نہ تھے تو صدر نے کہا تھا کہ یہ گورنروں کا اختیار ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کریں یا نہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو یہ معاملات گورنروں پر چھوڑ کر خود طویل المدت منصوبہ بندی اور عالمی سطح پر قیادت فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
تاہم، ایک اور قانونی ماہر سلمان یونس کا کہنا ہے کہ صدر ایمرجنسی پاور استعمال کرتے ہوئے کانگریس کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔