منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابي مہم کے دوران چین کے ساتھ تجارت پر کوئی زیادہ نکتہ چینی نہیں کی، لیکن انہوں نے یہ وعدہ کیاتھا کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہی دن بیجنگ کی جانب سے کرنسی کی قدر میں ہیرا پھیری کا معاملہ اپنے وزیر خزانہ کے حوالے کر دیں گے۔
لیکن اس بارے میں کم ہی معلومات ہیں کہ وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے کس طرح نمٹیں گے۔
اور یہ کہ مخالفانہ رائے رکھنے والے، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور اس خطے کے سیاسی تجزیہ کار اب یہ دیکھ رہے ہیں کہ آیا ان کے حقوق کے لیے امریکہ کی روایتی حمایت، ایک ایسے وقت میں نرم پڑ سکتی ہے جب کہ انہیں امریکی حمایت کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں اب کہیں زیادہ ہے۔
ایک غیر اعلانیہ سمجھوتے کے تحت امریکہ چین کے سیاسی اور سماجی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور چین ایشیا میں امریکی حیثیت کو چیلنج نہیں کرے گا۔
ٹرمپ کے مسلمانوں اور تارکین وطن کے لیے بیانات اور انتخابي مہم کے دوران ان کی شعله بیانیاں تشویش کے ایک پہلو کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اس سال جولائی میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک حکام نے ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ اس موقع پر ٹرمپ سے پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ شہریوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کے لیے حکام پر دباؤ ڈالیں گے تو ان کا کہناتھا کہ میرا خیال ہے کہ جب شہری حقوق کی بات ہو تو ہمارے ملک کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں اور میرا خیال ہے کہ ہمارے لیے یہ بہت مشکل ہو گا کہ ہم دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کریں جب کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ ہم خود کیا کررہے ہیں اور ہم اپنے ملک میں کیا دیکھ رہے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کے کئی شہروں میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کی ہلاکتوں کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے، ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کو بیرونی ملکوں میں انسانی حقوق پر بات کرنے کی بجائے اپنے معاملات درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
چین میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے نزدیک نئے منتخب امریکی صدر کی جانب سے ملنے والے اشارے پریشان کن ہیں۔
سن 2012 سے چین کے صدر ژی جن پنگ اپنے اختیارات میں اضافہ کر رہے ہیں اور انہوں نے معاشرے اور ہر طرح کے اظہار پر اپنا کنڑول سخت تر کر دیا ہے۔ حال ہی میں انہوں نے غیر ملکی غیر سرکار تنظیموں پر سخت کنٹرول پر مبنی ایک قانون منظور کیا ہے جس کا اطلاق اگلے سال جنوری سے ہو گا۔ انہوں نے بہت سے منحرفین اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کو جیلوں میں ڈال دیا ہے اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے وکیلوں کے خلاف پکڑ دھکڑ کی کارروائیاں کی ہیں۔
چین کے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن گی ینگ ژی کہتے ہیں کہ انہوں نے نئے منتخب امریکی صدر کی فتح یابی کی تقریر سنی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی انتخابي مہم کے بیانات سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں چین میں بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹرمپ کی پالیسیوں کے بارے میں بہت زیادہ غیر یقینی کا شکار ہیں۔
چین کے سرگرم کارکن کہتے ہیں کہ وہ اس پہلو پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اہم حکومتی عہدوں پر کن افراد کو تعینات کرتے ہیں۔ اور آیا نئی امریکی انتظامیہ چین میں انسانی حقوق کے انفرادی معاملات پر بدستور آواز بلند کرتی رہے گی۔
چین کے ایک اخبار ’ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘کے ایک تجزیہ کار جیمز وول سے کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک غیر اعلانیہ بڑا سمجھوتہ ہو سکتا ہے جس کے تحت امریکہ چین کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کو قبول کر لے گا اور کسی بھی انداز میں اس میں خلل اندازی نہیں کرے گا جس کے جواب میں چین ایشیا میں امریکہ کی موجودہ حیثیت کو چیلنج نہیں کرے گا۔