رسائی کے لنکس

ٹرمپ کا اسرائیل فلسطین تنازع پر پیش رفت ہونے کا دعویٰ


اردن کے شاہ عبداللہ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔
اردن کے شاہ عبداللہ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا کہ ان کی حکومت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے اپنا منصوبہ کب پیش کرے گی۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کی جانب خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔

پیر کو وائٹ ہاؤس میں اردن کے حکمران شاہ عبداللہ سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد ان کے بقول خطے میں "معاملات خاصے بہتر ہوئے ہیں۔"

امریکہ کے یورپی اتحادیوں - فرانس، جرمنی اور برطانیہ – نے 2015ء میں طے پانے والے اس جوہری معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کی مخالفت کی تھی اور ان تینوں ملکوں کا موقف ہے کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے والے دیگر دونوں ممالک – چین اور روس - کے ساتھ مل کر معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھیں گے۔

لیکن معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں اور اسرائیل نے پرجوش خیرمقدم کیا تھا جو ایران اور اس کے جوہری پروگرام کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔

حالیہ چند ہفتوں کے دوران سعودی عرب اور اسرائیل کی قیادت کے درمیان ملاقاتوں سے متعلق بھی کئی اطلاعات سامنے آچکی ہیں جن میں مبینہ طور پر دونوں ملکوں کی قیادت نے ایران کے بارے میں خدشات کے ساتھ ساتھ فلسطینی تنازع پر بھی بات چیت کی ہے۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران صدر ٹرمپ نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا کہ ان کی حکومت اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے اپنا منصوبہ کب پیش کرے گی۔

اس سے قبل صدر ٹرمپ کے داماد اور ان کے خصوصی مشیر جیرڈ کوشنر نے کہا تھا کہ ٹرمپ حکومت مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی حکمتِ عملی کا جلد اعلان کرنے والی ہے اور اگر فلسطین کے صدر محمود عباس نے ساتھ نہ بھی دیا تو بھی اس پر عمل کیا جائے گا۔

اتوار کو فلسطینی اخبار 'القدس' میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کوشنر نے اس منصوبے کی تفصیلات بتانے سے معذرت کرلی تھی۔

کوشنر کے اس بیان سے فلسطین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کا اظہار ہوتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ سال دسمبر میں اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے اعلان پر فلسطینی رہنماؤں نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا جس کے بعد سے فلسطینی حکومت اور امریکہ کے درمیان باضابطہ رابطے منقطع ہیں۔

جیرڈ کوشنر نے گزشتہ ہفتے خطے کا دورہ کیا تھا جس کے دوران ان کی اردن، سعودی عرب، قطر اور مصر کے حکام سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد کوشنر اور ان کے وفد نے ہفتے اور اتوار کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے بات چیت کی تھی۔

تاہم انہوں نے اس دورے کے دوران فلسطینی رہنماؤں سے کوئی ملاقات نہیں کی تھی۔

فلسطینی حکام بھی جیرڈ کوشنر پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں جنہیں صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ کے امور کی نگرانی سونپ رکھی ہے۔

امکان ہے کہ امریکی حکومت کے مجوزہ منصوبے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان بنیادی تنازعات – جیسے سرحدوں کے تعین، فلسطینی مقبوضات میں قائم یہودی بستیوں کے مستقبل، فلسطینی مہاجرین کی آباد کاری اور سلامتی کے خدشات سے متعلق معاملات کے حل کی تجاویز شامل ہوں گی۔

XS
SM
MD
LG