ایسے میں جب امریکی صدارتی انتخابات میں تین ہفتے باقی ہیں، ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ اُن کے خلاف انتخابات میں ''دھاندلی'' کی گئی ہے۔
ٹرمپ نے اتوار کو ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ''بدنیت اور مسخ کرنے پر تُلا ہوا میڈیا انتخاب میں بالکل دھاندلی کر رہا ہے اور چالاک ہیلری کو آگے بڑھا رہا ہے۔۔کئی ایک پولنگ کے مقامات پر بھی۔۔ افسوس''۔
اگر 8 نومبر کو ٹرمپ ہیلری کلنٹن سے ہار جاتے ہیں، تو یہ بات دیکھنی ہوگی آیا وہ نتائج تسلیم کرتے ہیں یا یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن سے الیکشن چرایا گیا۔
اگر وہ شکست تسلیم کرنے کی رسمیہ تقریر سے انکار کرتے ہیں تو ٹرمپ امریکی سیاست میں طویل مدت سے جاری روایت توڑیں گے۔
سنہ 2012میں ری پبلیکن پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار، مِٹ رومنی نے چار برس قبل انتخاب کی رات کو کہا تھا کہ ''میں نے صدر اوباما کو ٹیلی فون پر اُن کی فتح پر مبارکباد دی ہے''۔
سنہ 2000 میں بھی، جو امریکہ کی جدید تاریخ کا انتہائی کانٹے کا مقابلہ تھا، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے الگور نے ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار جارج ڈبلیو بش کے خلاف اپنی شکست تسلیم کی تھی، جب عدالت عظمیٰ نے فلوریڈا میں ووٹوں کی گنتی رکوا دی تھی، جس سے بش کو نہایت کم تعداد میں برتری حاصل ہوئی تھی۔
الگور نے ملک بھر کی ٹیلی ویژن نشریات میں کہا تھا کہ ''میں نے امریکہ کا تینتالیسواں صدر منتخب ہونے پر جارج ڈبلیو بش کو مبارکباد دی ہے۔ میں (نتائج) تسلیم کرتا ہوں''۔
جیسا کہ مروجہ روایت ہے، گور نے قومی اتحاد پر زور دیا، جس سے قبل سخت اور کانٹے کا مقابلہ جاری تھا۔
گور نے کہا کہ ''میں اپنی یہ ذمہ داری تسلیم کرتا ہوں کہ نئے منتخب صدر کو عزت دوں اور اُن کے لیے ہر ممکن مدد کی کوشش کروں جس سے امریکیوں کے اندر اتحاد بڑھے، تاکہ ہماری آزادی کے اعلان میں درج نصب العین پورا ہو، جس کی آئین تاکید اور دفاع کرتا ہے''۔