|
جمعرات کو نیویارک کی ایک عدالت سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جرائم کے 34 الزامات میں مجرم قرار دینے پر ملک کے سیاسی حلقوں نے فوری ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
ٹرمپ کے انتخابی حریف اور ڈیمو کریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار صدر جو بائیڈن کی مہم نے کہا ہے کہ نیویارک کی جیوری کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
بائیڈن-ہیرس مہم نے ایک بیان میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ غلط طور پر یہ سمجھتے رہے کہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے قانون توڑنے کے نتائج کا ان کو کبھی سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن آج سنایا جانے والا فیصلہ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا کہ امریکیوں کو ایک سادہ حقیقت کا سامنا ہے اور وہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ کے ذریعے ہی اوول آفس سے باہر رکھا جا سکتا ہے۔
ادھر ٹرمپ مہم نے ایک بیان میں مقدمے کی کارروائی کو غیر منصفانہ اور تحقیر آمیز قرار دیا ہے۔ سابق صدر کی مہم نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ فیصلہ ایک متنازع اور بدعنوان جج نے سنایا ہے۔ ٹرمپ نے بھی ایک بیان میں اس مقدمے کو دھاندلی سے تعبیر کیا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کے ری پبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے ایک بیان میں کہا کہ آج امریکی تاریخ کا ایک شرم ناک دن ہے۔ ڈیمو کریٹس نے مخالف پارٹی کے لیڈر کو احمقانہ الزامات میں سزا دینے پر خوشی کا اظہار کیا۔ یہ قطعی سیاسی معاملہ ہے نہ کہ قانونی۔
ادھر کانگریس کے ڈیموکریٹک ارکان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے امریکہ کے عدالتی نظام کی قوت کو ثابت کیا ہے۔
ڈیمو کریٹک سینیٹر اور سینیٹ کی جوڈیشری کورٹس سب کمیٹی کے چیئرمین شیلڈن وہائٹ ہاؤس نے کہا کہ ایک ایسا شخص جسے 34 جرائم میں سزا دی گئی اور جس نے قانون کی حکمرانی کے لیے کسی احترام کا مظاہرہ نہیں کیا وہ دنیا کی اس عظیم ترین قوم کی قیادت کا اہل نہیں ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ ایک سابق صدر کو مجرم قرار دینے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔
ٹرمپ کو جیل کی سزا کا سامنا بھی ہو سکتا ہے اور انہیں گھر میں بھی نظر بند کیا جاسکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے کونسل ترجمان آیان سیمس نے کہا کہ ہم قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہیں اور اس کے علاوہ مزید کچھ نہیں کہنا چاہتے۔
ٹرمپ کو فلوریڈا، جارجیا اور واشنگٹن میں علیہدہ فوجداری مقدمات کا سامنا ہے۔
اس خبر کی تفصیلات وائس آف امریکہ کے لیےکیتھرین گپسن کی رپورٹ سے لی گئی ہیں
فورم