صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز قومی سلامتی کی اپنی ٹیم سے ملاقات کی، جس میں افغانستان میں امن اور مفاہمت کے لیے جاری مذاکرات کے معاملے کو زیر غور لایا گیا۔
ملاقات میں نائب صدر مائیک پینس؛ وزیر خارجہ مائیک پومپیو؛ وزیر دفاع مارک ایسپر؛ قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن؛ نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد؛ جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کے سربراہ، جنرل ڈنفرڈ اور سی آئی اے کی ڈائریکٹر گینا ہسپال شریک ہوئیں۔
بعد ازاں، ایک اخباری بیان میں وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ’’افغانستان میں پیش رفت کے حصول کے لیے، ہم صدر کی قیادت میں جانفشانی سے کام کر رہے ہیں‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’حکومتِ افغانستان کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھتے ہوئے، ہم ایک مربوط امن سمجھوتا حاصل کرنے کے عزم پر گامزن ہیں‘‘۔
’’اس ضمن میں، تشدد کی کارروائیوں میں کمی لانا، جنگ بندی کا حصول، اس بات کو یقینی بنانا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف افغان سر زمین پھر کبھی استعمال نہ ہو، اور امن کے حصول کے لیے افغانوں کے مل کر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے‘‘۔
اس سے قبل انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کے حوالے سے ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعے کے روز اپنے چوٹی کے مشیروں سے ملاقات کر رہے ہیں، تاکہ طالبان سے ہونے والے مذاکرات اور ممکنہ سیاسی تصفیے سے متعلق گفت و شنید کی جا سکے، جس سے افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ممکن ہو سکے۔ ٹرمپ اس وقت نیو جرسی کے شہر بیڈمنسٹر میں اپنے گالف کلب میں تعطیل پر ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا آغاز 2001ء میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں ہوا جب القاعدہ کے خلاف کارروائی کی گئی، جہاں 11 ستمبر، 2001ء کے حملوں کے بعد طالبان حکومت نے القاعدہ کو محفوظ پناہ دے رکھی تھی۔
ٹرمپ اس بات کے خواہاں ہیں کہ امریکی فوجوں کو واپس بلایا جائے، ممکنہ طور پر نومبر 2020ء کے انتخابات سے قبل، حالانکہ انخلا کے معاملے پر امریکہ کی قومی سلامتی کے اہلکاروں میں سے چند کو تشویش ہے، چونکہ اس سے وہاں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ساؤتھ کیرولینا سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹر، لنڈسے گراہم نے، جو ٹرمپ کے اتحادی ہیں، کہا ہے کہ کسی بھی سمجھوتے میں امریکہ کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ افغانستان میں اپنی موجودگی قائم رکھے۔
ایک بیان میں، انھوں نے کہا ہے کہ ’’کوئی امن معاہدہ جس میں افغانستان میں امریکہ کو انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں ٹھوس اقدام کی گنجائش نہ ہو، وہ امن سمجھوتا نہیں کہلائے گا‘‘۔
بقول ان کے،’’برعکس اس کے، اس طرح کے سمجھوتے کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ پر مزید حملے اور دنیا بھر میں امریکی مفادات کے خلاف حملوں کی راہ کھل جائے گی‘‘۔
انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے کہا ہے کہ بیڈمنسٹر کی ملاقات میں ضروری نہیں کہ کوئی فیصلہ سامنے آئے۔ لیکن، بقول ان کے، ٹرمپ ’’بالکل واضح ہیں کہ وہ فوجوں کو واپس وطن بلانا چاہتے ہیں‘‘۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ممکنہ سمجھوتے کا محور امریکی فوجوں کے انخلا کے گرد گھوم رہا ہے، جب کہ باغیوں اور سرکاری اہلکاروں پر مشتمل وفد، اپوزیشن رہنما اور سول سوسائٹی کے ارکان کے درمیان سیاسی تصفیے پر گفتگو جاری ہے۔
قطر میں ہونے والے مذاکرات کے نویں دور میں خلیل زاد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ طالبان القاعدہ کی مذمت کریں، انتہاپسند حملوں کے لیے افغانستان کی سرزمین کو استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا اور جب بین الافغان مذاکرات ہو رہے ہوں تو ملک بھر میں جنگ بندی پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
دونوں فریق نے ان توقعات کا اظہار کیا ہے کہ سمجھوتا قریب ہے۔ خلیل زاد نے بارہا کہا ہے کہ جب تک سب معاملات طے نہیں ہوتے، تب تک کچھ بھی طے نہ سمجھا جائے۔