وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے یروشلم میں اپنی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کا آغاز اسرائیل کے انتہائی اہم اتحادی، امریکہ اور اُس کے نئے سربراہ ڈونالڈ ٹرمپ سے رابطہ کرکے کیا۔ دونوں نے اتوار کے روز ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
بات چیت سے قبل، وائٹ ہائوس نے بتایا کہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے سے متعلق بات ''ابھی سوچ کے انتہائی ابتدائی درجے پر ہے''۔ ٹرمپ نے ایسا کرنے پر زور دیا ہے۔
نیتن یاہو نے اتوار کی علی الصبح کہا کہ ''ہم عہدہ سنبھالنے پر صدر ٹرمپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''میں اسرائیل کے لیے اُن کی قریبی دوستی اور ساتھ ہی شدت پسند اسلامی دہشت گردی سے پوری طاقت کے ساتھ نمٹنے کی خواہش کے اعلان کو سراہتا ہوں''۔
نیتن یاہو کو ماضی میں اعتراض رہا ہے کہ وائٹ ہائوس کے اُن کے سابق حریف، صدر براک اوباما ''شدت پسند اسلامی دہشت گردی'' کی اصطلاح ادا کرنے سے انکار کرتے رہے تھے۔
اسرائیلی سربراہ سمجھتے ہیں کہ شدت پسند اسلام یہودی ریاست اور مغرب دونوں کے لیے یکساں طور پر خطرے کا باعث ہے۔ لیکن، اوباما فلسطین کے معاملے سے اسے علیحدہ کرنے کے خواہاں رہے، جسے وہ آزادی کی جائز جدوجہد قرار دیتے تھے۔ یہ کئی ایک معاملات میں سے ایک معاملہ تھا جس پر دونوں رہنمائوں کے درمیان نااتفاقی قائم رہی۔
دوسرا معاملہ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جوہری سمجھوتا تھا، جسے نیتن یاہو ایک تباہ کُن غلطی خیال کرتے ہیں، جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ایران کئی معاملوں میں سے ایک معاملہ ہے جو نئی انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈا میں سرِ فہرست ہے۔