امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہفتے کو حماس کی جانب سے ہونے والے حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 1200 اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے سے نیتن یاہو کو بری طرح زد پہنچی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نتین یاہو اور اسرائیل کے تیار نہیں تھے۔ ان کے بقول اگر وہ صدر ہوتے تو اسرائیل کو اس کے لیے تیار رہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اپنی تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگ میں مصروف ہے۔
بدھ کو فلوریڈا میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِ اعظم پر تنقید کی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ 2020 میں جب ان کی حکومت نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ایک حملے میں ہلاک کیا تھا تو اس کارروائی سے قبل نیتن یاہو نے انہیں دھوکہ دیا۔
سابق صدر نے اپنی تقریر میں حماس کے حملوں کا مقابلہ کرنے لیے اسرائیل کی انٹیلی جینس صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھایا۔
امریکہ کی سیاسی قیادت اور ری پبلکن پارٹی میں آئندہ انتخابات کے لیے صدارتی نامزدگی کے امیدواروں کی اکثریت نے حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔
صدر بائیڈن نے سات اکتوبر کے حملے کو یہودیوں کے لیے ہولوکاسٹ کے بعد سب سے زیادہ ہلاکت خیز دن قرار دیا ہے۔ حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اب تک دونوں جانب کے کم از کم 2500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایسے وقت میں اسرائیلی قیادت پر ٹرمپ کی کڑی تنقید کو وائٹ ہاؤس اور صدارتی نامزدگی کے ری پبلکن امیدواروں نے مسترد کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ 2024 کے امریکی صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی کے لیے مضبوط ترین امیدوار تصور ہوتے ہیں اور خود کو اسرائیل کا سب سے بڑا حامی قرار دیتے آئے ہیں۔
’نیتن یاہو نے دھوکہ دیا‘
اسرائیلی قیادت کے ساتھ اپنے ’ناخوشگوار تجربے‘ بیان کرنے سے پہلے انتخابی ریلی سے اپنی تقریر میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیل کے لیے دعا گو ہیں اور حماس کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
بعدازاں ان کا کہنا تھا کہ جب ایران کی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس مشن میں اسرائیل کو بھی ہمارا ساتھ دینا تھا۔ ان کے بقول اس منصوبے پر مہینوں سے کام ہو رہا تھا۔
ٹرمپ نے کہا کہ جب سب کچھ طے ہو گیا تو کارروائی سے ایک دن پہلے انہیں کال موصول ہوئی کہ اسرائیل اس حملے کا حصہ نہیں بنے گا۔
سابق صدر نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اس آپریشن میں عدم شرکت کی وجہ آج تک نہیں بتائی گئی اور انہوں نے بھی اس سے پہلے یہ بات نہیں کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں نیتن یاہو سے بہت مایوسی ہوئی اور بعد میں اسرائیلی وزیرِ اعظم نے اس کارروائی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے حملے کو اسرائیلی انٹیلی جینس کی ناکامی قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ خود کو مضبوط بنائے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیرِ دفاع کو بھی شدید تنقید نشانہ بنایا ہے۔
ٹرمپ کے بیان پر ردِعمل
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اسرائیلی وزیرِ اعظم کے دفتر نے تاحال ٹرمپ کے بیان پر ردِ عمل کے لیے رابطے کا جواب نہیں دیا۔
تاہم اسرائیل کے وزیرِ اطلاعات شولوم کرہی نے مقامی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ بات شرم ناک ہے کہ ایک سابق امریکی صدر پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں جن سے اسرائیل کے سپاہیوں اور شہریوں کی روح زخمی ہو رہی ہے۔‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں انہیں نیتن یاہو کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا تھا۔ 2018 میں صدر ٹرمپ نے اسرائیل کی جانب سے یروشلم کو دارالحکومت بنانے کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور امریکہ کا سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا۔ حالاں کہ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
صدارتی نامزدگی کے ری پبلکن امیدواروں میں ٹرمپ کے مضبوط مقابل رون ڈی سینٹس نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ صدارتی دوڑ میں شامل کسی شخص کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ہمارے دوست اور اتحادی اسرائیل پر حملہ کرے۔
انہوں نے ٹرمپ کی جانب سے لبنانی عسکری تنظیم حزب اللہ کو ’ویری اسمارٹ‘ کہنے پر بھی تنقید کی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان اینڈریو بیٹس نے بھی ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ موجودہ حالات میں ایران نواز دہشت گرد تنظیم کو ’اسمارٹ‘ کہنا مریضانہ اور انتہائی ناگوار بات ہے۔ ان کے بقول ’کوئی امریکی ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟‘
ٹرمپ اور دیگر ری پبلکن صدر بائیڈن کی حکومت کو حماس کے حالیہ حملے کے لیے ذمے دار قرار دیتے ہیں۔
ان کا مؤقف ہے کہ بائیڈن حکومت کی جانب سے ایران کے منجمد چھ ارب ڈالر جاری کرنے کی وجہ سے ایران کو حماس کی معاونت کے لیے مدد ملی۔ تاہم بائیڈن حکوت کے عہدے دار اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ ایران نے یہ رقم تاحال استعمال نہیں کی ہے۔
صدارتی نامزدگی کے ڈیمو کریٹک امیدواروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایسے وقت میں اسرائیل کو درپیش بحران سے متعلق غلط معلومات پھیلا رہے ہیں جب تمام ممالک کی جانب سے اسرائیلیوں سے اظہار یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔
تاہم سابق صدر کا یروشلم میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی اور ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ اسرائیل کی مدد کرنے والے صدر ہیں۔
اس کے علاوہ صدر ٹرمپ ہی کے دور میں امریکہ کی ثالثی سے ابراہام اکارڈ ہوا تھا جس کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کیے تھے۔
اس خبر میں شامل معلومات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہے۔
فورم