رسائی کے لنکس

اسرائیل فلسطینی تنازع پر جنگی جرائم کے کن بین الاقوامی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے؟


منگل کو عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل اور فسلطینیوں کے جاری حالیہ تنازع میں ممکنہ جرائم پر ان کے مینڈیٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔
منگل کو عالمی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل اور فسلطینیوں کے جاری حالیہ تنازع میں ممکنہ جرائم پر ان کے مینڈیٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینوں کے درمیان تنازع میں حماس کے حملوں کے بعد سے دونوں جانب بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے جن میں آنے والے دنوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

اسرائیل نے حماس کے حملوں کو جنگ قرار دیا ہے اور اس پر دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل پانے والے پیچیدہ بین الاقوامی نظام انصاف کا اطلاق ہوتا ہے۔

تنازع پر کن قوانین کا اطلاق ہوگا؟

بین الاقوامی سطح پر کسی بھی مسلح تنازع کے لیے 1949 میں تشکیل پانے والے جنیوا کنوینش کا اطلاق اقوامِ متحدہ کی تمام رکن ریاستوں پر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی جنگی جرائم بھی اسی کنونشن کے تحت آتے ہیں۔

شہریوں، فوجیوں اور قیدیوں سے متعلق کئی قوانین اور معاہدات ’لا آف آرمڈ کنفلکٹ‘ یا ’انٹرنیشنل ہیومینیٹرین لا‘ کے تحت آتے ہیں۔ یہ قوانین حکومتوں اور منظم مسلح گروپس پر لاگو ہوتے ہیں۔ حماس بھی ان گروپس میں شامل ہیں۔

اگر اسرائیل میں ہونے والے حملوں میں مبینہ طور پر مظالم کا ارتکاب کرنے والے فسلطینیوں یا فلسطینی علاقوں میں مبینہ جرائم کرنے والے اسرائیلیوں کو مقامی سطح پر جوابدہ نہیں بنایا جاتا تو ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) واحد عالمی ادارہ ہے جو ان الزامات کے تحت احتساب کر سکتا ہے۔

مقامی عدالتیں جنگی جرائم کے الزامات میں عالمی قوانین کا اطلاق کر سکتی ہیں۔ لیکن ایسا محدود پیمانے ہی پر ممکن ہوتا ہے۔ البتہ عالمی فوجداری عدالت مقامی حکام کی جانب سے ایسے جرائم پر کارروائی نہ کرنے یا کرنے سے گریز کرنے کی صورت میں رکن ممالک کی حدود میں ان کے شہریوں کے خلاف مبینہ جرائم کی تحقیقات کر سکتی ہے۔

اسرائیل کا دفاعی نظام آئرن ڈوم کیسے کام کرتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

منگل کو عالمی فوج داری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل اور فسلطینیوں کے جاری حالیہ تنازع میں ممکنہ جرائم پر ان کے مینڈیٹ کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ اس سلسلے میں شواہد جمع کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی فوج داری عدالت کا کردار کیا ہوگا؟

ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے لیے جنگی جرائم کے مستقل ٹربیونل 2002 میں قائم کیے گئے تھے۔ 123 رکن ممالک یا ان کے شہریوں کی جانب سے جنگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلقہ جرائم کا ارتکاب ان ٹربیونلز کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔

چین، امریکہ، روس، بھارت اور مصر سمیت کئی بڑے ممالک بین الاقوامی فوجداری عدالت کے رکن نہیں ہیں۔ آئی سی سی فلسطین کو اپنا رکن قرار دیتی ہے۔ تاہم اسرائیل اس کے دائرہ کار کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی سرکاری طور پر اس کے ساتھ تعاون کا پابند ہے۔

اپنے محدود وسائل اور عملے کے ساتھ آئی سی سی کے پراسیکیوٹر یوکرین، افغانستان، سوڈان اور میانمار سمیت 17 مقدمات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ آئی سی سی نے 2023 کے دوران فلسطینی علاقوں میں تحقیقات کے لیے 10 لاکھ ڈالر سے کچھ زائد رقم مختص کی ہے اور اس میں اضافے کے لیے کوشاں ہے۔

آئی سی سی پہلے ہی 2021 کے دوران ہونے والی جھڑپوں کے دوران مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں تاحال آئی سی سی نے گرفتاری کے وارنٹس جاری نہیں کیے ہیں۔ پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ 2021 کے دوران اسرائیلی فورسز، حماس اور دیگر فلسطینی عسکری گروپس کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی۔

حماس اور اسرائیل کب کب آمنے سامنے آئے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

کون سے اقدام جنگی جرائم کے قوانین کے تحت آتے ہیں؟

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق حالیہ تنازع میں فلسطینی عسکری گروپس کی جانب سے مبینہ طور پر جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانے، راکٹ حملے اور عام شہریوں کو یرغمال بنانے جیسے اقدمات جنگی جرائم کے قوانین کے تحت آتے ہیں۔

اسی طرح غزہ میں اسرائیل کے جوابی حملوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کی ہلاکت کا باعث بننے والی کارروائیوں پر بھی ان قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ میں ڈائریکٹر برائے اسرائیل اور فلسطین عمر شاکر کا کہنا ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے شہریوں کا قتل، انہیں یرغمال بنانا اور اجتماعی طور پر کوئی سزا دینا ان میں سے کسی اقدام کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔

جنیوا کنوینشن میں یرغمال بنانے، قتل اور تشدد پر پابندی عائد کی گئی ہے اسی طرح اسرائیل کے جوابی حملے کی تحقیقات بھی جنگی جرائم کے قوانین کے تحت ہو سکتی ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ دفاع یواف گیلانٹ کی جانب سے غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی اور وہاں خوراک اور ایندھن کی فراہمی مکمل طور پر روکنے کے اعلان پر اقوامِ متحدہ کے عہدے داران اور حقوقِ انسانی کے گروپس نے تنقید کی ہے۔

گیلانٹ نے حماس کو ’صفحۂ ہستی سے مٹانے‘ کا اعلان بھی کیا ہے اور توقع کی جاری ہے کہ اسرائیل فلسطینی عسکری گروپ کے خلاف کارروائی میں شدت لے کر آئے گا۔

منگل کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے اور اس کی کچھ ذمے داریاں بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے گفتگو میں یہ بات بھی ہوئی کہ اسرائیل اور امریکہ جیسے جمہوری ممالک کس طرح قانون پر عمل کر کے مزید مضبوط اور محفوظ ہوتے ہیں۔

کسی بھی علاقے کا محاصرہ کر کے اس میں شہریوں کو نشانہ بنانا جنگی جرائم میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی قوانین میں کہا گیا ہے کہ فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے شہری علاقوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

آئی سی سی میں برطانوی نژاد اسرائیلی دفاعی وکیل نک کوفمین کا کہنا ہے کہ حماس کے عسکریت پسندوں نے جس طرح کیبوتس اور غزہ کے نزدیک شہریوں کو نشانہ بنایا ہے بلاشبہ جنگی جرائم کے دائرے میں آتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG