امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار ترک کرنے پر آمادہ ہوجائے تو اسے بہت دولت ملے گی اور کم خاندان کے اقتدار کو تحفظ دیا جائے گا۔
لیکن، صدر ٹرمپ کے بقول، اگر کم جونگ ان جوہری ہتھیاروں سے متعلق کسی معاہدے پر راضی نہ ہوئے تو ان کا غریب ملک صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گا۔
جمعرات کو نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹالٹنبرگ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتےہوئے صدر ٹرمپ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ 12 جون کو امریکہ اور شمالی کوریا کی طے شدہ سربراہی ملاقات کے متعلق پیانگ یانگ کے لہجے میں اچانک تبدیلی کم جونگ ان اور چین کے صدر ژی جن پنگ کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ممکن ہے کہ چینی صدر کم جونگ ان پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ تاہم صدر نے اپنے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی۔
ایک سوال پر کہ اگر شمالی کوریاطے شدہ ملاقات سے پیچھے ہٹا تو امریکہ کا ردِ عمل کیا ہوگا، صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "پھر ہم اگلا قدم اٹھائیں گے۔" انہوں نے اس اگلے قدم کی وضاحت بھی نہیں کی لیکن امریکی حکام یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر شمالی کوریا کے رویے میں تبدیلی آئی تو اس پر عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کی جائیں گی۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ سربراہی ملاقات سے متعلق پیانگ یانگ سے آنے والے بیانات کے باوجود امریکی اور شمالی کورین حکام کے درمیان ملاقات کی تیاریوں کے سلسلے میں بات چیت بدستور جاری ہے جن میں صدر کے بقول پیانگ یانگ کے حکام کا رویہ ایسا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
بعد ازاں وائٹ ہاؤس کے کیبنٹ روم میں نیٹو سیکریٹری جنرل اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بتایا کہ شمالی کوریا کے حکام امریکہ سے رابطے میں ہیں اور امریکی بھی ان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے اس بیان سے قبل جمعرات کو شمالی کوریا کے اعلیٰ مذاکرات کار ری سون گوون نے جنوبی کوریا کی حکومت کو "خود سر اور نکمی" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔
یہ بیان شمالی کوریا کی جانب سے گزشتہ دو روز میں سامنے آنے والے ان اشتعال انگیز بیانات کی نئی کڑی ہے جن میں پیانگ یانگ نے گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے جاری خیر سگالی کے اقدامات کے برعکس پڑوسی ملک جنوبی کوریا اور اس کے اتحادی امریکہ پر اچانک دوبارہ تنقید شروع کردی ہے۔
اس سے قبل رواں ہفتے شمالی کوریا نے جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان ہونے والی فوجی مشقوں پر تنقید کرتے ہوئے سول حکومت کے ساتھ اپنی طے شدہ بات چیت اچانک منسوخ کردی تھی۔
اس اقدام کے چند گھنٹے بعد ہی شمالی کوریا کے نائب وزیرِ خارجہ نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکہ نے شمالی کوریا سے یک طرفہ طور پر جوہری ہتھیار ترک کرنے کا مطالبہ برقرار رکھا تو پیانگ یانگ حکومت 12 جون کو سنگاپور میں ہونے والی صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے فیصلے پر نظرِ ثانی کرے گی۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ کے اس سوال کہ اگر پیانگ یانگ اور سول کے درمیان مذاکرات بحال نہ ہوئے تو کیا ٹرمپ اور کم ملاقات ہوپائے گی، وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے امید ظاہر کی کہ ملاقات طے شدہ شیڈول کے مطابق ہوگی۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سنگاپور میں ہونے والی ملاقات امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ہے لیکن امریکہ اس صورتِ حال پر جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان کو بھی اعتماد میں لے گا جوآئندہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔