صدرٹرمپ نے کہا ہے کہ انہیں کبھی کسی نے نہیں بتایا تھا کہ روس کی فوجی انٹیلی جینس یونٹ نے بڑی رازداری کے ساتھ طالبان عسکریت پسندوں کو افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے پر انعام دینے کی پیش کش کی تھی۔
صدر ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی اس بارے میں رپورٹ کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ امریکی انٹیلی جینس کے عہدے دار کئی مہینے قبل ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ روسی خفیہ ایجنسی کا یونٹ، جو یورپ کو غیر مستحکم کرنے کے لیے وہاں کوششیں اور خفیہ کارروائیاں کر رہا ہے، اس نے پچھلے سال افغانستان میں بھی ایک مہم چلائی تھی،جس کے متعلق مجھے مارچ میں بریفنگ دی گئی تھی۔
اتورا کو اپنے ایک ٹوئٹ میں صدر نے کہا کہ انہیں نہ تو کسی نے بتایا ہے اور نہ ہی بریف کیا ہے۔ نائب صدر مائیک پینس یا وائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف مارک میڈوز نے بھی افغانستان میں روسیوں کی جانب سے ہمارے فوجیوں پر حملوں کے متعلق کچھ نہیں بتایا، جیسا کہ نامعلوم ذرائع کے حوالے سے نیویارک ٹائمز میں جھوٹی خبر دی گئی ہے۔ ہر کوئی اس سے انکار کر رہا ہے اور یہ کہ وہاں ہم پر زیادہ حملے نہیں کیے گئے۔
پچھلے سال افغانستان میں 20 امریکی فوجی مارے گئے تھے، تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کن ہلاکتوں کا تعلق روس کی جانب سے مبینہ طور پر انعام کی پیش کش سے ہو سکتا ہے۔
ناقدین کہتے ہیں وائٹ ہاؤس میں اپنے ساڑھے تین سالہ قیام کے دوران صدر ٹرمپ اکثر روسی صدر ولادی میر پوٹن کے لیے بہت احترام کا رویہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ نے یہ ٹوئٹ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے مقابلے میں روس کے لیے کسی اور کا رویہ اتنا سخت نہیں رہا۔ انہوں نے اس کا موازنہ سابق صدر براک اوباما اور سابق نائب صدر جو بائیڈن سے کیا۔ بائیڈن اس سال نومبر کے صدارتی انتخابات میں صدر ٹرمپ کے مدمقابل ہوں گے جو اپنے عہدے کی دوسری مدت کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے مذکورہ اخبار کو چیلنج کیا کہ وہ اپنے نامعلوم ذرائع کو سامنے لائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اخبار یہ نہیں کر سکتا کیونکہ امکان یہی ہے کہ اس خبر کے پیچھے کسی ذرائع کا وجود ہی نہیں ہے۔
دوسری جانب روس نے افغانستان میں امریکی یا نیٹو فورسز کے ارکان کی ہلاکت کے بدلے میں طالبان کو انعام دینے کی خبر کو غلط قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے۔
امریکہ میں روسی سفارت خانے نے اخبار میں شائع ہونے والی خبر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امریکہ اور برطانیہ میں تعینات روسی سفارتی عملے کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
ادھر طالبان نے بھی امریکہ یا نیٹو کے فوجیوں کی ہلاکت کے لیے روسی خفیہ اداروں سے کسی قسم کے معاہدے کی تردید کی ہے۔
اخبار نے لکھا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد طالبان اور امریکہ کے درمیان اس وقت جاری امن مذاکرات کو نقصان پہنچانا تھا۔