صدر ڈونلڈ ٹرمپ صحت کی دیکھ بھال کے ایک بل کی منظوری میں سابقہ ناکامی کے بعد کانگریس کے ری پبلکن ارکان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ آنے والے ہفتوں میں ٹیکس کی کٹوتیوں کے ایک پیکیج کوان کی پہلی بڑی قانونی کامیابی کے طور پر نافذ کریں۔
لیکن ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ ابھی تک امریکی انتخابات میںٕ روس کی دخل اندازی کی تحقیقات کی وجہ سے الجھاؤ کا شکار ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ٹیکس کی کٹوتیوں سے متعلق اپنی صدارتی مہم کا ایک کلیدی وعدہ پورا کرنے کے قریب ہیں جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اس سے معیشت مضبوط ہو گی اور روزگار پیدا ہوں گے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ میں کسی مبالغہ آرائی کے بغیر آپ کو یہ بتاؤں گا کہ کسی بھی صدر نے دس ماہ کی مدت میں وہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے جو ہم حاصل کر چکے ہیں۔
صحت کی دیکھ بھال کے بل پر ایک ناکامی اور میکسیکو کی سرحد کے ساتھ ایک دیوار کی تعمیر میں معمولی کامیابی کے بعد ٹرمپ اپنی مقبولیت کی تاریخی کمی کو بڑھانے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں ۔ لیکن روس سے متعلق تحقیقات میں قومی سلامتی کے سابق مشیرمائیکل فلن کی جانب سے اقبال جرم اس چیز کی یاد دہانی ہے کہ یہ تحقیقاتی کارروائی ابھی تک الجھاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رائے عامہ کے بیشتر جائزے صدر کی مقبولیت کی شرح چالیس فیصد سے کم ظاہر کر رہے ہیں، لیکن تجزیہ کار رابرٹ جونز کہتے ہیں کہ ری پبلکنز کی جانب سے ان کی حمایت کی شرح بدستور بلند ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی اپنی پارٹی میں مقبولیت خاصی اچھی ہے ۔انہیں دس میں سے آٹھ ری پبلکنز کی حمایت حاصل ہے جو خاصی نمایاں تعداد ہے اور وہ ان کی حمایت میں در حقیقت کمی نہیں لا سکتے۔
ایتھکس اینڈ پالیسی سینٹر کے ہینری اولسن کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے حامیوں کو ڈر ہے کہ کہیں اقتصادی اور معاشرتی عوامل ان کے کنٹرول سے باہر نہ ہو جائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں امریکی زندگی میں اپنے معاشی اور ثقافتی مقام کے چھن جانے کا خوف تھا اور وہ اسے واپس حاصل کرنا چاہتے تھے ۔اس لیے ری پبلکن پرائمری انتخابات میں زیادہ تر اس قسم کے خوف نے ٹرمپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔
ڈیمو کریٹس نے ورجینیا اور نیو جرسی کے حالیہ انتخابات میں زیادہ تر کامیابی اس بنیاد پر حاصل کی کہ ٹرمپ مخالف ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے نکلی ۔ لیکن آزاد خیال تجزیہ کار مثلاً جوئے ریڈسمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کے اصل حامی ابھی تک ان کے ساتھ وفادار ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ جن ڈیمو کریٹس کے ذہن میں یہ خیال راسخ ہے کہ ٹرمپ کے ووٹرزان سے منہ موڑ لیں گے تو میرا خیال ہے کہ ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا کیوں کہ بہت سے لوگوں کے لیے ٹرمپ ان کا أوباما ہے اور انہیں ملک کے کم از کم ایک تہائی حصے پر ثقافتی کنٹرول حاصل ہے جسے میرا خیال ہے کوئی چیز توڑ نہیں سکتی۔
جان فرنٹیر کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی مقبولیت کی مجموعی شرح میں کمی اگلے سال کانگریس کےوسط مدتی انتخابات میں ری پپبلکنز کے لیے ایک رکاوٹ بن سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر صدر اپنے کام کے حوالے سے 38 یا 39 فیصدمقبولیت کے اسی مقام پر رہتے ہیں جس پر وہ آج ہیں تو وسط مدتی انتخابات غالباً ری پبلکنز کے لیے زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوں گے ۔ وہ ایوان نمائندگان میں نشستیں کھو دیں گے اور ممکن ہے اپنی اکثریت کو خطرے میں ڈال دیں۔
کانگریس کے ری پبلکن ارکان کا خیال ہے کہ اگلے سال کے انتخابات میں خود کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ صدر کے ایجنڈے کو نافذ کیا جائے۔