امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایران کو متنبہ کیا کہ 2015ء کے بین الاقوامی معاہدے سے علیحدہ ہونے کے امریکی فیصلے کے بعد اگر ایران جوہری ہتھیار تشکیل دینا شروع کرتا ہے تو اُسے ’’انتہائی سنگین نتائج‘‘ بھگتنے پڑیں گے، جس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں اپنے مختصر کلمات میں، ٹرمپ نے کہا کہ ’’بہت جلد‘‘ امریکہ معاشی تعزیرات دوبارہ عائد کردے گا، تاکہ ایران کو مجبور کیا جائے کہ وہ سمجھوتے کی نئی شرائط مانے، اپنے بیلسٹک میزائل تجربات اور شام، یمن اور مشرق وسطیٰ کے دیگر مقامات پر فوجی مداخلت بند کرنے سے متعلق مذاکرات پر تیار ہو۔
امریکی سربراہ نے الزام لگایا کہ ایران خطے میں ’’پاگل خانہ اور موت‘‘ کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم بہت ہی اچھا سمجھوتا طے کریں گے یا پھر ہم کوئی معاہدہ نہیں کر پائیں گے‘‘۔
ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ امریکہ ’’شاید اُن کے ساتھ بہت اچھے نتائج برآمد نہ کر سکے‘‘، لیکن کہا کہ اُن کے لیے یہ بھی قابل قبول ہوگا۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر تنقید جاری رکھی، جسے اُن کے پیش رو براک اوباما نے طے کیا تھا، جسے اُنھوں نے ’’بہت برا، بہت ہی برا سمجھوتا‘‘ قرار دیا، جسے، بقول اُن کے ’’ہونا ہی نہیں چاہیئے تھا‘‘۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب معاہدے میں شامل پانچ ملکوں جرمنی، برطانیہ، فرانس، روس اور چین سب نے سمجھوتے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
جرمن چانسلر آنگلہ مرخیل نے امریکہ کی جانب سے 2015ء کے معاہدے سے الگ ہونے کو ’’افسوس ناک‘‘ قرار دیا، اور کہا کہ جرمنی ’’تمام ممکنہ کوشش کرے گا کہ مستقبل میں ایران بھی اپنی ذمہ داری پوری کرے‘‘۔