امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیر سے شروع ہونے والے دو روزہ دورہ بھارت کے قریب آتے ہی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں آباد سکھ آبادی میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔
وادی میں ہائی سیکیورٹی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور حفاظتی انتظامات انتہائی سخت ہیں۔
صدر ٹرمپ اور خاتون اوّل میلانیا ٹرمپ پیر کو دو روزہ دورے پر بھارت پہنچیں گے جس کے دوران وہ احمد آباد، آگرہ اور نئی دہلی جائیں گے۔
سری نگر میں پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے بتایا کہ پولیس فورس اور دوسرے حفاظتی دستے پوری طرح الرٹ ہیں اور امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر میں صورتِ حال کو پُرامن بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ پولیس اور سیکیورٹی فورسز اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ ہر شہری اپنے روز مرہ کے کاموں کو پُرامن طریقے سے انجام دے سکے۔
دلباغ سنگھ نے کہا "ہم عوام کے شکر گزار ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ وہ تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔"
ادھر کشمیری سکھوں کی تنظیموں کے ایک اتحاد نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کے دورے کے پیشِ نظر کیے گئے حفاظتی سے کمیونٹی کچھ خدشات کا شکار ہے۔ سکھوں کو صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران، وادی میں اپنی کمیونٹی کے خلاف تشدد کے واقعات کا خدشہ ہے۔ ایسا ماضی میں امریکی صدر کلنٹن کے دورے کے موقعے پر ہو چکا ہے۔
سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے سال 2000 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے موقع پر وادیٔ کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ کے چھٹی سنگھ پورہ گاؤں میں بھارتی فوج کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے سکھ اقلیت سے تعلق رکھنے والے 35 افراد کو گھروں سے زبردستی باہر نکال کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
آل پارٹیز سکھ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے چیئرمین جگموہن سنگھ رینہ نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کے دورے کے موقعے پر بھی سکھ اقلیت خدشات کا شکار ہے۔
جگموہن سنگھ رینہ کے مطابق بھارتی حکومت نے چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام کے لیے مزاحمت کاروں کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ مارے گئے تمام دہشت گرد غیر ملکی تھے تاہم یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا کیوں کہ مارے گئے تمام افراد مقامی تھے۔
عام شہریوں کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کے اس واقعے پر احتجاج کرنے والے ایک ہجوم پر اننت ناگ ہی کے براکہ پورہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کی گئی فائرنگ میں دس شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
جگموہن رینہ نے کہا کہ صدر براک اوباما بھارت آئے تھے تو تب بھی وادیٔ کشمیر کے سکھوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم خوش قسمتی سے اُس وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ تاہم ان کے بقول، ہم اس مرتبہ سکھ فرقے کے لوگوں کو محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، جبکہ ہمارے کشمیری مسلمان بھائیوں کو بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔