ایسے میں جب نومبر کے کانگریس کے وسط مدتی انتخابات سر پر ہیں، ری پبلیکن پارٹی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی عوامی مقبولیت پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے، جو اس وقت اوسطاً 42 فی صد کی سطح پر ہے۔
رائے عامہ کے دو نئے جائزوں کے مطابق، ٹرمپ کی مقبولیت 40 فی صد سے کم ہے۔
’گیلپ‘ کے ہفتہ وار جائزے کے لحاظ سے اُن کی مقبولیت 42 فی صد ہے، جب کہ اُن کے عہدے کی کارکردگی کو 52 فی صد ناپسند کرتے ہیں۔
’مونماؤتھ یونیورسٹی‘ کی نئی جائزہ رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 43 فی صد انہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب کہ 50 فی صد پسند نہیں کرتے، جس کے بارے میں ’مونماؤتھ‘ کا کہنا ہے کہ جنوری سے رائے عامہ کے جائزے یہی بتا رہے ہیں۔
تاہم، تازہ ترین تین سروے رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ صدر کی مقبولیت کی شرح 40 فی صد سے نیچے چلی گئی ہے، جو ری پبلیکن پارٹی والوں کی نگاہ میں، جن کی نظر نومبر کے وسط مدتی انتخابات پر لگی ہوئی ہے، ایک لمحہ ٴفکریہ ہے۔
گذشتہ ہفتے کے ’گیلپ پول‘ میں صدر کی مقبولیت 39 فی صد کی شرح پر تھی۔ جولائی کے ’کوئنپیک پول‘ میں ٹرمپ کی شرح مقبولیت 38 فی صد جب کہ ’این پی آر/پی بی ایس/نیوزآور/مارسٹ پول‘ کے مطابق، صدر کی شرح مقبولیت 39 فی صد ہے۔
تاریخی طور پر جب کسی صدر کی مقبولیت 50 فی صد سے نیچے ہوتی ہے، وسط مدتی انتخابات میں صدر کی جماعت زیادہ نشستیں ہار جاتی ہے۔ بل کلنٹن اور براک اوباما اپنے دور صدارت میں پہلے وسط مدتی انتخابات میں ایوان نمائندگان کی 50 سے زائد نشستیں ہار گئے تھے؛ جب کہ اُن کی مقبولیت کی شرح ٹرمپ کی اس وقت کی مقبولیت سے قدرے بہتر تھی۔
معاشی امور پر توجہ
صدر کا خیال ہے کہ فروغ پاتی ہوئی امریکی معیشت پر ٹھوس دھیان کے نتیجے میں ری پبلیکن پارٹی نومبر میں ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں زیادہ نشستیں برقرار رکھ پائے گی۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کابینہ کے ایک حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’ہماری معیشت پہلے سے بہتر کارکردگی دکھا رہی ہے۔ جب ہم نے عہدہ سنبھالا، یہ غلط سمت پر رواں تھی، اور اب یہ پہلے سے بہت بہتر ہے‘‘۔