حکومتِ پاکستان اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان جہاں مصالحت کی کوششیں ہو رہی ہیں وہیں کالعدم تنظیم نے سیکیورٹی اہلکاروں کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ وہ فورسز سے علیحدگی اختیار کر لیں بصورتِ دیگر انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ٹی ٹی پی کا سیکیورٹی اہلکاروں کے نام یہ دھمکی آمیز خط حال ہی میں منظرِ عام پر آیا ہے جس میں انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ 'بے گناہ لوگوں پر ظلم و ستم' سے باز رہیں۔
ٹی ٹی پی نے اپنے اس خط میں اپنی سرگرمیوں کو بھی تیز کرنے کی دھمکی دی ہے۔ تاہم حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی شدت پسند گروہ کو ریاستی عمل داری کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ٹی ٹی پی کا یہ خط ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب عید الفطر کے فوراً بعد جنوبی وزیرستان کے محسود قبائل کے سرکردہ رہنماؤں نے حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات اور مصالحت کے لیے ایک 40 رکنی جرگہ تشکیل دیا تھا۔
جرگے کے ترجمان شیرپاؤ محسود نے ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت میں فریقین سے کم از کم ایک ماہ کے لیے جنگ بندی کی اپیل کی تھی تاہم اب تک کسی بھی فریق نے اس اپیل پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
وزیرِ اعلی خیبر پختونخوا محمود خان کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے جرگے کی تشکیل کا خیر مقدم کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ حکومت قیامِ امن کے لیے کالعدم شدت پسند تنظیم سمیت تمام عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن کسی بھی شدت پسند گروہ کو ریاستی عمل داری کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ حالیہ عرصے میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے تاہم دہشت گردوں کے خلاف پولیس، فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔
'مصالحت کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں'
بیرسٹر سیف نے بتایا کہ حکومت پہلے ہی گزشتہ چند برسوں سے قیام امن کے لیے ہر ایک تنظیم سے بات چیت اور مصالحت کے لیے کوشاں ہے اس سلسلے میں محسود جرگے کے علاوہ کئی دیگر قبائل اور سیاسی رہنما بھی مصالحت کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
ان کے بقول بعض وجوہات کی بنا پر مصالحت کی کوششیں اب تک بار آور ثابت نہیں ہوسکیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق رواں برس مارچ کے مقابلے میں اپریل میں عسکریت پسندی کے حملوں میں 24 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اپریل میں عسکریت پسندی کے 34 واقعات میں مجموعی طور پر 55 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوئے جب کہ مارچ میں دہشت گردی کے 26 واقعات میں 77 افراد ہلاک اور تقریباً 288 زخمی ہوئے۔
تجزیہ کار سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ عسکریت پسندی اور دہشت گردی اب ایک ذہنی رویہ اور معاشی روزگار کا ذریعہ بن چکی ہے جس کے خاتمے کے لیے مربوط لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں موجود ہے جس کے افغان طالبان سے ماضی میں رابطے رہے ہیں، اس لیے شاید افغانستان میں طالبان کی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے۔
سید اختر علی شاہ عسکری پسندی کے خاتمے کے لیے حکومتِ پاکستان اور افغان حکومت کو تجویز دی کہ دونوں ملک ایک جیسی حکمتِ عملی اپنا کر عسکریت پسندی پر قابو پا سکتے ہیں۔
پشاور کے ایک سینئر صحافی فرید اللہ کہتے ہیں افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان میں شدت پسند عناصر کی کارروئیوں میں کمی آئے گی لیکن ان توقعات کے برعکس پاکستان میں عسکریت پسند ی میں اضافہ ہوا ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ طالبان حکومت بین الاقوامی برادری کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے اور وہاں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے بارے میں کیے گئے وعدوں کو تاحال پورے نہیں کر رہی۔