پہلی مرتبہ یہ میرے ساتھ 2009 میں ہوا مگر میں نے جلد ہی اس پر قابو پالیا کیونکہ تب صرف دس دن کی بات تھی۔ مگر اس بار میں اس الجھن کا شکار ہوں کہ اب کیا ہوگاَ؟ اس بار تو پورے 365 دن تھے۔۔۔ اسے اپنی زندگی میں شامل رکھوں ایک عادت کی طرح اور جسے میرے بارے میں جو بھی سوچنا ہے وہ سوچتا رہے۔ میں اسے چھوڑنے والی نہیں اور یا پھر ابھی سے اسے چھوڑنے کی مشق شروع کر دوں؟
جون 2009 میں اپنی پہلی امریکہ یاترا پر تو مجھے بھی یہ بہت ہی عجیب لگا۔۔۔ میں سوچتی تھی کہ آخر سب لوگ مجھے دیکھ کر مسکراتے کیوں ہیں؟ کئی بار تو میں نے اپنا جائزہ بھی لیا کہ کہیں میرے کپڑوں، جوتوں، بالوں یا چہرے میں کوئی گڑ بڑ تو نہیں؟ یہ لوگ نہ تومیرے دوست ہیں، نہ ہی میں نے انہیں پہلے کبھی دیکھا ہے اور نہ ہی ان سےدوبارہ کبھی ملاقات ہونے کا کوئی موقع ملے شاید، تب بھی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے درمیان کبھی تو صرف ایک اور کبھی کبھار ایک سے کچھ زائد الفاظ کا تبادلہ ہوا کرتا۔
ہر روز نئے لوگ، سڑک پر چلتے ہوئے، بس میں سفر کے دوران، شاپنگ سینٹر، ائیر پورٹ یہاں تک کھ پبلک ٹوائلٹس کے باہر بھی۔ دس دن کے اندر اندر مسکرا کر اگلے کو سلام کرنا میری بھی عادت بن گئی، اکثر تو ان سے پہلے میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھرتی اور میری زبان ’ہائے ہاو آر یو ٹوڈے‘ کے چند الفاظ ادا کرتی۔ سامنے سے آنے والا شخص اس کا جواب اسی مسکراہٹ سے دیتا اور ہم دونوں ہوا کے جھونکے کی طرح ایک دوسرے کے پاس سے گزر جاتے۔
دس دن امریکہ میں گزارنے کے بعد جب لاہور ائیر پورٹ پر اتری تو سامنے سے آنے والے افراد کو دیکھ کر مرد و عورت کی تفریق کیے بغیر ہی میں نہ صرف مسکرائی بلکہ پاس سے گزرتے گزرتے میں نے السلام و علیکم بھی کہہ ڈالا، مگر۔۔۔ میرے ملک کے لوگوں کو میرا یسا کرنا بہت ہی عجیب لگا، جواباً مسکرانا اور سلام کا جواب دینا تو دور کی بات میری حرکت تو ان کے چہروں پر ایک ناگواری کا تاثر چھوڑ گئی۔
سفر کی تکان نے اس وقت تو اس سب پر غورکرنے کا موقع تو نہ دیا مگر ایک دو روز بعد جب میں اپنے دفتر پہنچی تو وہاں بھی اپنی اس چند روز میں پختہ ہونے والی عادت کے تحت ہر جانے انجانے کو مسکرا کر دیکھا اور سر ہلا کر سلام بھی کر دیا۔ اس بار آگے سے آنے والا رد عمل ناگواری کے علاوہ کچھ اور بھی تھا۔ دو تین حضرات نے تو میری مسکراہٹ کے جواب میں مجھے اپنے موبائل نمبر تھما دیئے، کچھ تو میرے پاس رک کر مجھے یوں گھورتے کہ جیسے میری مسکراہٹ کے پیچھے ان کے لیے کوئی خاص پیغام چھپا تھا۔ اور کچھ نے تو مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ ’تم اتنا مسکراتی کیوں ہو‘؟
میں بہت ہی عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی۔۔ گھر آکر اپنے بھائی کو سارا ماجرا سنایا تو وہ پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگے اور اس نے مجھے باقاعدہ طور پر بے وقوف قرار دے دیا۔ اس کا کہنا بھی ٹھیک ہی تھا کہ ہمارے ہاں ایسی باتوں کا ہمیشہ غلط مطلب ہی لیا جائے گا۔ مانا کہ ہمارا مذہب اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرو، سب سے عزت کے ساتھ پیش آو مگر ہمارے ملک میں ایسی روایات کو کبھی پروان چڑہنے ہی نہیں دیا گیا جن میں انسان کی عزت و تکریم کی جائے۔ میں اکیلی اس معاشرے میں یہ تبدیلی نہیں لا سکتی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ میری اس حرکت کے جواب میں لوگ میرے گھر تک پہنچ جائیں، بہتر ہے کہ میں اسے بدل لوں۔ مجھے اس وقت ان کا مشورہ ہی بہتر لگا۔عادت چونکہ صرف دس دن پرانی تھی اس لیے میں نے فوراً ہی اپنے چہرے کی مسکراہٹ کو سنجیدگی کے خول میں بند کردیا۔
اب مسئلہ کچھ یوں ہے کہ میں تقرباً ایک برس سے امریکہ میں ہوں، جیسے جیسے میری واپسی کے دن قریب آرہے ہیں دیگر خدشات کے ساتھ ساتھ میری سوچ کا محور اس بات کے گرد بھی گھوم رہا ہے کہ اب کی بار تو یہ عادت پختہ ہو چکی ہے، اب اس سے پیچھا کیسے چھوٹے گا؟ مجھے یہ عادت پسند بھی ہے۔ آپ کا موڈ چاہے کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو۔ آپ پردیس میں کتنی ہی تنہائی کا شکار کیوں نہ ہوں، اور آپ نے چاہے کتنے ہی روز سے کسی سے بات نہ کی ہو مگر جیسے ہی آپ اپنے گھر سے باہر نکلیں تو آپ کے سامنے آنے والا پہلا شخص آپ کو خاموشی اور اداسی کےبند توڑنے پر مجبور کر کے آپ کے چہرے پر جواباً مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ حقیقتاً میں نے دیار ِغیر میں ایسے کئی موقعوں پر اپنے اندر خوشی اور تسلی کی ایک لہر دوڑتی محسوس کی ہے۔
اب آپ ہی بتائیں، کیا یہ بری بات ہے؟ کسی اجنبی کو دیکھ کر مسکرانا اور سلام کرنا غلط کیوں ہے؟ میں اس عادت کو کیوں چھوڑوں جو کسی کے لیے بھی نقصان کا باعث نہیں ہے۔ کیا مجھے پھر سے سنجیگی کا خول چڑھانا ہوگا؟ اس بار میں اس عادت کو ترک کرنے کا اراداہ نہیں رکھتی۔ چاہے لوگ مجھے پاگل سمجھیں یا کچھ اور۔۔۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں امریکہ سے واپس اپنی پاک سر زمین پر یہ عزم لے کر اترنا چاہتی ہوں کہ میں نے امریکہ میں جو کچھ بھی پڑھا اور سیکھا اس سے اپنے ملک کو فائدہ پہنچاؤں۔ اور اس کی ابتدا میں اپنی اسی عادت کو تبدیل نہ کرکے کروں گی تاکہ میں کم از کم اپنے ارد گرد کے ماحول میں مثبت روایات کو پروان چڑھا سکوں۔
جون 2009 میں اپنی پہلی امریکہ یاترا پر تو مجھے بھی یہ بہت ہی عجیب لگا۔۔۔ میں سوچتی تھی کہ آخر سب لوگ مجھے دیکھ کر مسکراتے کیوں ہیں؟ کئی بار تو میں نے اپنا جائزہ بھی لیا کہ کہیں میرے کپڑوں، جوتوں، بالوں یا چہرے میں کوئی گڑ بڑ تو نہیں؟ یہ لوگ نہ تومیرے دوست ہیں، نہ ہی میں نے انہیں پہلے کبھی دیکھا ہے اور نہ ہی ان سےدوبارہ کبھی ملاقات ہونے کا کوئی موقع ملے شاید، تب بھی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارے درمیان کبھی تو صرف ایک اور کبھی کبھار ایک سے کچھ زائد الفاظ کا تبادلہ ہوا کرتا۔
ہر روز نئے لوگ، سڑک پر چلتے ہوئے، بس میں سفر کے دوران، شاپنگ سینٹر، ائیر پورٹ یہاں تک کھ پبلک ٹوائلٹس کے باہر بھی۔ دس دن کے اندر اندر مسکرا کر اگلے کو سلام کرنا میری بھی عادت بن گئی، اکثر تو ان سے پہلے میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھرتی اور میری زبان ’ہائے ہاو آر یو ٹوڈے‘ کے چند الفاظ ادا کرتی۔ سامنے سے آنے والا شخص اس کا جواب اسی مسکراہٹ سے دیتا اور ہم دونوں ہوا کے جھونکے کی طرح ایک دوسرے کے پاس سے گزر جاتے۔
دس دن امریکہ میں گزارنے کے بعد جب لاہور ائیر پورٹ پر اتری تو سامنے سے آنے والے افراد کو دیکھ کر مرد و عورت کی تفریق کیے بغیر ہی میں نہ صرف مسکرائی بلکہ پاس سے گزرتے گزرتے میں نے السلام و علیکم بھی کہہ ڈالا، مگر۔۔۔ میرے ملک کے لوگوں کو میرا یسا کرنا بہت ہی عجیب لگا، جواباً مسکرانا اور سلام کا جواب دینا تو دور کی بات میری حرکت تو ان کے چہروں پر ایک ناگواری کا تاثر چھوڑ گئی۔
سفر کی تکان نے اس وقت تو اس سب پر غورکرنے کا موقع تو نہ دیا مگر ایک دو روز بعد جب میں اپنے دفتر پہنچی تو وہاں بھی اپنی اس چند روز میں پختہ ہونے والی عادت کے تحت ہر جانے انجانے کو مسکرا کر دیکھا اور سر ہلا کر سلام بھی کر دیا۔ اس بار آگے سے آنے والا رد عمل ناگواری کے علاوہ کچھ اور بھی تھا۔ دو تین حضرات نے تو میری مسکراہٹ کے جواب میں مجھے اپنے موبائل نمبر تھما دیئے، کچھ تو میرے پاس رک کر مجھے یوں گھورتے کہ جیسے میری مسکراہٹ کے پیچھے ان کے لیے کوئی خاص پیغام چھپا تھا۔ اور کچھ نے تو مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ ’تم اتنا مسکراتی کیوں ہو‘؟
میں بہت ہی عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہو چکی تھی۔۔ گھر آکر اپنے بھائی کو سارا ماجرا سنایا تو وہ پیٹ پکڑ کر ہنسنے لگے اور اس نے مجھے باقاعدہ طور پر بے وقوف قرار دے دیا۔ اس کا کہنا بھی ٹھیک ہی تھا کہ ہمارے ہاں ایسی باتوں کا ہمیشہ غلط مطلب ہی لیا جائے گا۔ مانا کہ ہمارا مذہب اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرو، سب سے عزت کے ساتھ پیش آو مگر ہمارے ملک میں ایسی روایات کو کبھی پروان چڑہنے ہی نہیں دیا گیا جن میں انسان کی عزت و تکریم کی جائے۔ میں اکیلی اس معاشرے میں یہ تبدیلی نہیں لا سکتی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ میری اس حرکت کے جواب میں لوگ میرے گھر تک پہنچ جائیں، بہتر ہے کہ میں اسے بدل لوں۔ مجھے اس وقت ان کا مشورہ ہی بہتر لگا۔عادت چونکہ صرف دس دن پرانی تھی اس لیے میں نے فوراً ہی اپنے چہرے کی مسکراہٹ کو سنجیدگی کے خول میں بند کردیا۔
اب مسئلہ کچھ یوں ہے کہ میں تقرباً ایک برس سے امریکہ میں ہوں، جیسے جیسے میری واپسی کے دن قریب آرہے ہیں دیگر خدشات کے ساتھ ساتھ میری سوچ کا محور اس بات کے گرد بھی گھوم رہا ہے کہ اب کی بار تو یہ عادت پختہ ہو چکی ہے، اب اس سے پیچھا کیسے چھوٹے گا؟ مجھے یہ عادت پسند بھی ہے۔ آپ کا موڈ چاہے کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو۔ آپ پردیس میں کتنی ہی تنہائی کا شکار کیوں نہ ہوں، اور آپ نے چاہے کتنے ہی روز سے کسی سے بات نہ کی ہو مگر جیسے ہی آپ اپنے گھر سے باہر نکلیں تو آپ کے سامنے آنے والا پہلا شخص آپ کو خاموشی اور اداسی کےبند توڑنے پر مجبور کر کے آپ کے چہرے پر جواباً مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ حقیقتاً میں نے دیار ِغیر میں ایسے کئی موقعوں پر اپنے اندر خوشی اور تسلی کی ایک لہر دوڑتی محسوس کی ہے۔
اب آپ ہی بتائیں، کیا یہ بری بات ہے؟ کسی اجنبی کو دیکھ کر مسکرانا اور سلام کرنا غلط کیوں ہے؟ میں اس عادت کو کیوں چھوڑوں جو کسی کے لیے بھی نقصان کا باعث نہیں ہے۔ کیا مجھے پھر سے سنجیگی کا خول چڑھانا ہوگا؟ اس بار میں اس عادت کو ترک کرنے کا اراداہ نہیں رکھتی۔ چاہے لوگ مجھے پاگل سمجھیں یا کچھ اور۔۔۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ میں امریکہ سے واپس اپنی پاک سر زمین پر یہ عزم لے کر اترنا چاہتی ہوں کہ میں نے امریکہ میں جو کچھ بھی پڑھا اور سیکھا اس سے اپنے ملک کو فائدہ پہنچاؤں۔ اور اس کی ابتدا میں اپنی اسی عادت کو تبدیل نہ کرکے کروں گی تاکہ میں کم از کم اپنے ارد گرد کے ماحول میں مثبت روایات کو پروان چڑھا سکوں۔