ووٹ ڈالے جانے سے پہلے یہ ایک آخری انتخابی جلسہ ہے ۔ اعتدال پسند اسلامی پارٹی النهضة کے ہزاروں حامی یہاں جمع ہیں۔ کئی عشروں تک تیونس پر ایک پارٹی کی حکمرانی رہی ۔ اب تیونس کے لوگ اپنی پسند کے امیدوار کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں۔ اتوار کے انتخاب میں آئین ساز اسمبلی کی رکنیت کے لیے ہزاروں اُمیدوار میدان میں آ گئے ہیں۔ یہ اسمبلی ایک نیا آئین تیار کرے گی جس پر شمالی افریقہ کے اس ملک کے سیاسی نظام کی بنیاد رکھی جائے گی۔
پیرس کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر اسٹیفن ایکووچ برسوں سے تیونس کی سیاست کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مصر میں اور عرب دنیا کے دوسرے حصوں میں، سب کی نظریں اس انتخاب پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘عرب موسمِ بہار کی تحریک کا آغاز تیونس سے ہوا، اور اگر یہ تحریک کامیاب ہونی ہے، تو اس کا آغاز بھی تیونس سے ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی ملک کامیابی سے جمہوریت کی طرف پیش قدمی کر سکتا ہے تووہ تیونس ہی ہے ۔ اور اس کے زبردست اثرات ہوں گے ، مثلاً مصر میں، جو عرب دنیا کا اہم ترین ملک ہے۔’’
تیونس کے بہت سے لوگ، جیسے 34 سالہ ویسی عادلی، پہلی بار اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔
عادلی بے روزگار ہیں ۔ انھیں امید ہے کہ انتخابات سے ایسا سیاسی نظام قائم ہو گا جس سے انسانی وقار بحال ہوگا اور لوگوں کو روزگار ملے گا۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ النهضة پارٹی مقبولیت میں سب سے آگے ہے۔ سابق ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی نے اس پارٹی پر پابندی لگا دی تھی ۔ اب یہ پارٹی اپنے نام کی عملی تصویر ہے۔ عربی میں النهضة کا مطلب ہے نشاۃ ثانیہ ۔ پارٹی کی خاتون ترجمان یسریٰ غنوشی النهضة کے لیڈر راشد الغنوشی کی بیٹی ہیں جو برطانیہ میں دو عشرے کی جلا وطنی کے بعد، جنوری میں تیونس واپس لوٹے ہیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد کی پارٹی کا تعلق سیاست سے ہے، مذہب سے نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ‘‘ہم اسلام کی اخلاقی اقدار سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو ہمارے عقیدے کے مطابق آفاقی اقدار ہیں، یعنی آزادی، وقار، مساوات ۔یہ بالکل ایسا ہی جیسے دوسری پارٹیوں کے لیے لبرل یا بائیں بازو کا پس منظر اہم ہے ۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں مذہب کوئی ایسی چیز نہیں جس میں مملکت کو مداخلت کرنی چاہیئے یا اسے مسلط کرنا چاہیئے ۔ یہ اپنی اپنی پسند کا معاملہ ہے ۔’’
یسریٰ غنوشی نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہ پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ النهضة چاہتی ہے کہ تیونس کے عورتوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور انہیں ترقی دے ۔ عرب دنیا میں تیونس کی عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق حاصل ہیں اور انہیں سب سے زیادہ آزاد خیال کیا جاتا ہے ۔ یسریٰ غنوشی کے مطابق ‘‘ہم نے اپنے پروگرام میں ایسی بہت سی پالیسیاں رکھی ہیں جن سے عورتوں کو مزید حقوق حاصل ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے ان کے تعلیم، روزگار، برابر کی تنخواہ کے حقوق اور عورتوں کے خلاف ہر شکل میں تشدد کے خاتمے پر زور دیا ہے ۔’’
النهضة کو وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل ہے ۔ تیونس کی نواحی بستی بن اروس کے ایک انتخابی اجتماع میں ، سرپر حجاب لی ہوئی عورتوں کے ساتھ ایسی عورتیں بھی تھیں جن کے سر ڈھکے ہوئے نہیں تھے اور جوجین پہنے ہوئے تھیں۔ تیونس کی حالیہ سیاسی تاریخ پر مغرب کے اثرات بہت گہرے ہیں ۔ اور بہت سے ووٹروں کی نظریں بائیں بازو کی سیکولر پارٹیوں، جیسے ماڈرن ڈیموکریٹک پول یا ایم ڈی پی کے اتحاد پر ہیں۔
حبیب بو رقیبہ ایونیو پر انتخابی مہم کے آخری دن اشتہار بانٹتے ہوئے،ایم ڈی پی کے اُمیدوار سمیر طیب نے مذہب اور سیاست کو اکٹھا کرنے کے خلاف انتباہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘طیب کہتےہیں کہ النهضة تیونس کے لیے خطرہ ہے، صرف اس کے مذہبی رجحان کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ اس کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے ۔ عورتوں کو جو حقوق حاصل ہیں وہ انہیں واپس لے لے گی۔
انتخابات میں 217 نشستوں کے لیے ووٹنگ ہو رہی ہے اور مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ النهضة کو اکثریت حاصل ہو جائے ۔ وہ پہلے ہی اتحاد کی تشکیل کے لیے دوسری پارٹیوں سے مذاکرات کر رہی ہے ۔ تیونس کے بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اہم ترین بات یہ ہے کہ بالآخر ان کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا۔