رسائی کے لنکس

تیونس میں نئی حکومت کی ممکنہ حکمت عملی پر خدشات کا اظہار


تیونس میں نئی حکومت کی ممکنہ حکمت عملی پر خدشات کا اظہار
تیونس میں نئی حکومت کی ممکنہ حکمت عملی پر خدشات کا اظہار

تیونس کی نئی آئین ساز اسمبلی میں 40 فیصد سے کچھ زیادہ نشستیں جیتنے کے بعد، اعتدال پسند اسلام پسند Ennahdha(النهضة) پارٹی اپنے سیکولر حریفوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے مذاکرات کر رہی ہے ۔ اگرچہ النهضة نے اپنے بیانات میں سب کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا وعدہ کیا ہے، لیکن بعض لوگوں کو اندیشہ ہے کہ یہ پارٹی تیونس کی سیکولر، مغرب نواز پالیسیوں کو تبدیل کر دے گی ۔

سیاسی جلسوں میں، با وقار اور خوش گفتار خاتون سوعاد عبد الرحیم جن کا سر ڈھکا ہوا نہیں ہے، النهضة پارٹی کے نرم اور شائستہ روپ کی عکاسی کرتی ہیں۔ تیونس کے انتخابات میں اس اسلامی پارٹی کی فتح سے نئی آئین ساز اسمبلی میں انہیں ایک نشست مل گئی ہے ۔ 47 سالہ خاتون کے لیے جو دو بچوں کی ماں ہیں اور پیشے کے لحاظ سے فارمیسسٹ ہیں، سیاست میں حصہ لینے کا یہ پہلا موقع ہے ۔

تیونس کے نواح میں اپنے کشادہ گھر میں باتیں کرتے ہوئے، انھوں نے بتایا کہ انھوں نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ النهضة میں اس لیے شامل ہوئیں تاکہ یہ غلط تاثر دور کر سکیں کہ یہ ایک کٹڑ اور دقیانوسی خیالات والی پارٹی ہے ۔

یہ پارٹی اعتدال پسندی اور تنوع کو فروغ دیتی ہے اور ترکی کو اپنا ماڈل قرار دیتی ہے ۔ پارٹی کی خاتون ترجمان یسریٰ غنوشی، النهضة کے لیڈر راشد الغنوشی کی بیٹی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں النهضة نہ صرف عورتوں کے موجودہ حقوق کو قائم رکھے گی، بلکہ انہیں مزید وسعت دے گی۔ اس میں ان کا یہ حق بھی شامل ہے کہ وہ اگر چاہیں تو پردہ نہ کریں۔

وہ کہتی ہیں’’یہ مملکت کا کام نہیں کہ وہ عورتوں پر کسی خاص قسم کا لباس ٹھونسے ۔ یہ سرا سر اپنی ذاتی پسند کا معاملہ ہے۔‘‘

لیکن بعض لوگوں کو ڈر ہے کہ یہ پارٹی سیاسی اسلام کے عروج کو ہوا دے گی۔ ہمسایہ ملک لیبیا میں، لیڈرز شرعی قانون پر زور دے رہے ہیں۔ تیونس کے دوسرے ہمسایہ ملک میں 1990 کی دہائی میں اسلام پسندوں کی بغاوت کو کچلنے میں سخت خونریزی ہوئی تھی ۔

اس سال تیونس میں جب دو متنازع فلمیں دکھائی گئیں، تو اسلام پسندوں نے احتجاج کیا اور پولیس سے ان کی جھڑپیں ہوئیں۔ النهضة نے تشدد کی مذمت کی۔

لیکن جمعے کے روز النهضة کے خلاف مزید احتجاج ہوئے ۔ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے مظاہرین پر ہوائی فائرنگ کی اور ان پر آنسو گیس پھینکی جب ان لوگوں نے النهضة پارٹی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کرنے کی کوشش کی ۔

ممتاز سماجی کارکن خدیجہ شریف کا خیال ہے کہ تیونس میں اگلا معرکہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہو گا۔ تیونس میں عورتوں کو کافی حقوق حاصل ہیں۔ اس میں ان کا پردہ نہ کرنے کا حق بھی شامل ہے۔

خدیجہ شریف کا خیال ہے کہ النهضة عورتوں کے حقوق کے لیے جدو جہد نہیں کرے گی۔ لیکن ان کے خیال میں عورتوں نے جو حقوق حاصل کر لیے ہیں ، وہ انہیں واپس نہیں لے سکے گی۔

ہیومن رائٹس واچ کے علاقائی ڈپٹی ڈائریکٹر ایرک گولڈاسٹیئن کہتے ہیں کہ النهضة کی طرف سے لوگوں کو ملے جلے پیغام مل رہےہیں۔’’پارٹی کے لیڈروں نے تیونس کے تمام لوگوں کے اندیشے دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے کہ ہم عورتوں کو پردہ کرنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ ہم شراب پر پابندی نہیں لگائیں گے ۔ ہم اپنے مقاصد صرف جمہوریت کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پارٹی کے درمیانے درجے کے ارکان کی باتوں سے لوگوں کو تشویش ہو رہی ہے۔ بعض مبلغین جس طرح وعظ دیتے ہیں اس میں رواداری کا فقدان ہوتا ہے۔‘‘

تا ہم، 29 سالہ بلاگر اور صحافی، حاتم المکّی کہتےہیں کہ اسلام کے بارے میں خوفزدہ کرنے کی بیشتر باتیں مغرب کی طرف سے کہی جا رہی ہیں۔

’’اسلام پسند ، سرگرم سیاسی کارکن ہیں۔ دوسرے سیاسی کارکنوں کی طرح ہمیں ان پر اس وقت تنقید کرنی چاہئیے جب وہ کوئی غلط کام کریں، اور جب وہ کوئی اچھا کام کریں، تو ہمیں ان سے اتفاق کرنا چاہئیَے۔‘‘

بہت سے ووٹروں میں النهضة کی مقبولیت کی وجہ صرف اس کا مذہبی ہونا نہیں ہے۔ خاتون سیاست دان سوعاد عبد الرحیم کا خیال ہے کہ یہ پارٹی تیونس کے قدامت پسند کلچر کی بھی عکاسی کرتی ہے۔

سوعاد عبد الرحیم کہتی ہیں کہ سیکولر پارٹیاں عورتوں کے لیے مکمل آزادی چاہتی ہیں ۔ اس میں جنسی آزادی اور شادی کیے بغیر بچے پیدا کرنا بھی شامل ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ چیزیں تیونس کے رسم و رواج کے خلاف ہیں ۔ نہ ہی ہم جنس پرستی اور غیر مسلموں میں شادی کرنا تیونس کے رواج کے مطابق ہے ۔

لیکن ان کا خیال ہے کہ کام کی جگہوں میں عورتوں کو مرد وں کے برابر ہونا چاہیئے اور انہیں تیونس کی اگلی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG