رسائی کے لنکس

تیونس میں صدارتی انتخابات


ان انتخابات میں لگ بھگ تیس امیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن اصل میں یہ مقابلہ سابق صدر کے پرانے عہدیدار اور حقوق انسانی کے ایک سرگرم رکن کے درمیان ہے۔

تیونس کے شہری نئے صدر کے انتخاب کے لیے اتوار کو ووٹ ڈالے گئے۔ یہ انتخابات 2011ء کے انقلاب میں مطلق العنان حکمران زین العابدین بن علی کے اقتدار سے خاتمے کے بعد تیسرے آزادانہ انتخابات ہیں۔

ان انتخابات میں لگ بھگ تیس امیدوار حصہ لے رہے ہیں لیکن اصل میں یہ مقابلہ زین العابدین کے پرانے عہدیدار اور حقوق انسانی کے ایک سرگرم رکن کے درمیان ہے جن کا یہ کہنا ہے کہ یہ انتخابات پرانے دورحکومت کے ارکان کی دوبارہ (اقتدار میں) واپسی کو روکنے کا ایک موقع ہے۔

سابق صدر کی ایک ہی جماعت کے اقتدار کے خاتمے کے تین سال بعد تیونس ایک نئے آئین کو قبول کر کے خطے کے دوسری ممالک کے لیے تبدیلی کا ایک ماڈل بن کر سامنے آیا اور اس سے ملک میں افراتفری کا خاتمہ ہوا ہے جس کا خطے کے باقی ممالک کو سامنا ہے۔

اتوار کے انتخابات اکتوبر کے عام انتخابات کے بعد ہو رہے ہیں جس میں سب سے بڑی سیکولر جماعت ندا نے پارلیمان کی سب سے زیادہ نشستیں جیت کر اسلامی جماعت النہضہ کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا جس نے 2011ء کے پہلے آزادانہ انتخابات جیتے تھے۔

اب ہر کوئی سیکولر اور اسلامی حریفوں کے درمیان سمجھوتے کو تیونس کی سیاسی کامیابی کے لیے ضروری خیال کرتا ہے لیکن مبصرین اس بارے میں خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ سابق دور حکومت سے منسلک عہدیدارو ں کی واپسی 2011ء کے انقلاب کے لیے دھچکا ہو گی۔

ندائے تیونس جماعت کے رہنما 87 سالہ الباجی قائد ایسبسی، بن علی کے حکومت کے سابق عہدیدار ہیں اور ان کے بڑے حریف برسر اقتدار صدر منصف مرزوقی اس مقابلے میں سب سے آگے ہیں جبکہ مرزوقی منتبہ کر رہے ہیں کہ ایسبسی کے جیتنے کا مطلب دوبارہ ایک جماعت کے دور کی واپسی ہو گا۔

ایسبسی اور بن علی کے دور کے سابق عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ان پر سابق دور حکومت کے حوالے سے بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا کوئی الزام نہیں ہے۔

دوسری طرف اکثر مبصرین کا خیال ہے کہ نہ تو ایسبسی اور نہ ہی مرزوقی اتنے ووٹ حاصل کر پائیں گے کہ انہیں دسمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

صدارتی انتخابات کے بعد ندائے تیونس کی قیادت میں نئی حکومت تشکیل دی جائے گی تاہم اس کی پارلیمان میں النہضۃ پر معمولی برتری کی وجہ سے صدارتی انتخابات کے بعد نئی انتطامیہ کی تشکیل سے متعلق اسے مشکل مذاکرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

النہضۃ نے نہ تو اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے اور نہ ہی کسی کی حمایت کر رہی ہے اس لیے اس کے حامیوں کا کردار اس انتخابات کے نتائج کے حوالے سے اہم ہو گا۔

XS
SM
MD
LG