اس مہینے جب نیا تعلیمی سال شروع ہوا، تو ترکی میں بہت سے والدین کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان کے بچوں کے اسکول مذہبی اداروں میں تبدیل ہو گئےہیں۔ ترکی میں ایسے اسکولوں کو Imam Hatips کہا جاتا ہے یعنی ایسے اسکول جہاں خطیب اور امام تیار کیے جاتے ہیں۔ اسکولوں میں مذہبی تعلیم کا اضافہ حکومت کی طرف سے تعلیمی نظام میں اصلاحات کا حصہ ہے ۔
محمد عاکف مڈل اسکول میں ، والدین اپنے بچوں کو گھر واپس لے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس اسکول میں، بظاہر اماموں اور خطیبوں کی تربیت دینے کے لیے، کورس کو اسلامی رنگ دے دیا گیا ہے ۔ جس پر وہ خاصے ناراض ہیں۔ان کا کہناہے کہ اب وہ یہ کہیں گے کہ اپنی بیٹی کے سر پر اسکارف باندھو اور اسے ڈھیلا ڈھالا لباس پہننا پڑ ے گا ۔ وہ ہمیں پیچھے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سیکولر ازم کے اصولوں پر تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ اب تک ایسا ہی ہور ہا تھا اور ہم سب خوش تھے۔
لیکن بعض والدین نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایک خاتون جو اسلامی تعلیمات کے مطابق، سر پر اسکارف باندھے ہوئے ہیں، کہتی ہیں کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے اور Imam Hatip جیسے اسکولوں میں ہمارے بچوں کو مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے کو مذہبی تعلیم ملے ۔ تنقید کرنے والے بات کو بلا وجہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں ۔ ہمارا ملک مسلمان ہے لہٰذا ہماری تعلیم میں مذہب بھی شامل ہونا چاہیئے۔
ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے بھی استنبول کے ایک قدیم ترین مذہبی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ ابتدا میں Imam Hatips، اماموں کی تربیت کے لیے قائم کیے گئے تھے ۔ لیکن آج کل کے اسکولوں میں عام تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی۔ ترکی کی مذہبی آبادی میں یہ اسکول مقبول ہو گئے ہیں ۔
عام کورس کے ساتھ ساتھ ان سکولوں میں قرآن کی تلاوت جیسی کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ایک ٹیچر Azmi Dogan کہتے ہیں کہ Imam Hatip جیسے اسکول، ترکی کی مذہبی آبادی کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ Imam Hatips یعنی مذہبی اسکول 1950 کی دہائی میں اپنے قیام کے وقت سے ہی متنازعہ رہےہیں۔ 1990 کی دہائی میں جب ملک کی سیکولر فوج نے اسلامی تحریک کے خلاف کارروائی شروع کی، تو بہت سے مذہبی اسکول بھی بند کر دیے گئے۔
ترکی کی حکمراں پارٹی نے اس سال کے شروع میں اسکولوں کی اصلاحات کے قانون پر عمل در آمد شروع کر دیا جس کے تحت اسکولوں کو جدید نصاب کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور سیکولر ترکوں اور اساتذہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے اسلام پسندوں کا ایجنڈا نافذ کیا جا رہا ہے اور اس طرح تعلیم کا معیار پست ہو جائے گا۔
لیکن استنبول کی Bilgi یونیورسٹی کے پروفیسر Kenan Cayir کہتے ہیں کہ ان اسکولوں کے اثرات مثبت ہو سکتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسکول یہ بات سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ مذہب اور جدید یت میں ٹکراؤ ہونا ضروری نہیں، اور مذہب اور جدید تہذیب ساتھ ساتھ چل سکتےہیں ۔ ترکی میں یہ معاملہ بڑا متنازعہ ہے کیوں کہ جو لوگ تہذیب کو سیکولر ازم کے مساوی قرار دیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ مذہب اور جدیدیت میں تصادم لازمی ہے۔ لہٰذا ہمیں مذہب کو ترک کر دینا چاہیئے۔
ترکی کی اسلام پسند حکومت کہتی ہے کہ Imam Hatip اسکولوں کی توسیع کے ذریعے صرف ان اسکولوں کو بحال کیا جا رہا ہے جو 1990 کی دہائی میں بند کر دیے گئے تھے ۔
لیکن اس قسم کے بیانات سے بعض والدین کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے اور ان کا احتجاج جاری ہے ۔
حکمراں اے کے پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ، علی بوگا کہتے ہیں کہ Imam Hatips اسکولوں میں توسیع محض ابتدا ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم یہاں Imam Hatip کے گریجویٹس یا اتحادیوں کی حیثیت سے جمع ہوئے ہیں ۔ ہم ان اسکولوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ کر دیں گے ۔ ہمیں تمام اسکولوں کو Imam Hatip اسکول بنانے کا موقع ملا ہے ۔
حکومت یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ اس کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ اس کے بجائے، وزیرِ اعظم اردوان نے ان اسکولوں کے ناقدین پر نکتہ چینی کی ہے جب کہ ان کے وزیرِ تعلیم نے کہا ہے کہ اصلاحات کی مخالفت کرنے والے یا تو دہشت گردوں کے حامی ہیں، یا جنون کی حد تک سیکولرسٹ ہیں۔اس بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی میں جہاں لوگوں کے درمیان اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں، تعلیم بھی متنازع موضوع بن جائے گی۔
محمد عاکف مڈل اسکول میں ، والدین اپنے بچوں کو گھر واپس لے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس اسکول میں، بظاہر اماموں اور خطیبوں کی تربیت دینے کے لیے، کورس کو اسلامی رنگ دے دیا گیا ہے ۔ جس پر وہ خاصے ناراض ہیں۔ان کا کہناہے کہ اب وہ یہ کہیں گے کہ اپنی بیٹی کے سر پر اسکارف باندھو اور اسے ڈھیلا ڈھالا لباس پہننا پڑ ے گا ۔ وہ ہمیں پیچھے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سیکولر ازم کے اصولوں پر تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ اب تک ایسا ہی ہور ہا تھا اور ہم سب خوش تھے۔
لیکن بعض والدین نے اس تبدیلی کا خیر مقدم کیا ہے۔ ایک خاتون جو اسلامی تعلیمات کے مطابق، سر پر اسکارف باندھے ہوئے ہیں، کہتی ہیں کہ یہ مسلمانوں کا ملک ہے اور Imam Hatip جیسے اسکولوں میں ہمارے بچوں کو مذہب کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے کو مذہبی تعلیم ملے ۔ تنقید کرنے والے بات کو بلا وجہ بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں ۔ ہمارا ملک مسلمان ہے لہٰذا ہماری تعلیم میں مذہب بھی شامل ہونا چاہیئے۔
ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے بھی استنبول کے ایک قدیم ترین مذہبی اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی ۔ ابتدا میں Imam Hatips، اماموں کی تربیت کے لیے قائم کیے گئے تھے ۔ لیکن آج کل کے اسکولوں میں عام تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی۔ ترکی کی مذہبی آبادی میں یہ اسکول مقبول ہو گئے ہیں ۔
عام کورس کے ساتھ ساتھ ان سکولوں میں قرآن کی تلاوت جیسی کلاسیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ایک ٹیچر Azmi Dogan کہتے ہیں کہ Imam Hatip جیسے اسکول، ترکی کی مذہبی آبادی کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ Imam Hatips یعنی مذہبی اسکول 1950 کی دہائی میں اپنے قیام کے وقت سے ہی متنازعہ رہےہیں۔ 1990 کی دہائی میں جب ملک کی سیکولر فوج نے اسلامی تحریک کے خلاف کارروائی شروع کی، تو بہت سے مذہبی اسکول بھی بند کر دیے گئے۔
ترکی کی حکمراں پارٹی نے اس سال کے شروع میں اسکولوں کی اصلاحات کے قانون پر عمل در آمد شروع کر دیا جس کے تحت اسکولوں کو جدید نصاب کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم دینے کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور سیکولر ترکوں اور اساتذہ کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہو گئے ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس قانون کے ذریعے اسلام پسندوں کا ایجنڈا نافذ کیا جا رہا ہے اور اس طرح تعلیم کا معیار پست ہو جائے گا۔
لیکن استنبول کی Bilgi یونیورسٹی کے پروفیسر Kenan Cayir کہتے ہیں کہ ان اسکولوں کے اثرات مثبت ہو سکتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسکول یہ بات سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ مذہب اور جدید یت میں ٹکراؤ ہونا ضروری نہیں، اور مذہب اور جدید تہذیب ساتھ ساتھ چل سکتےہیں ۔ ترکی میں یہ معاملہ بڑا متنازعہ ہے کیوں کہ جو لوگ تہذیب کو سیکولر ازم کے مساوی قرار دیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ مذہب اور جدیدیت میں تصادم لازمی ہے۔ لہٰذا ہمیں مذہب کو ترک کر دینا چاہیئے۔
ترکی کی اسلام پسند حکومت کہتی ہے کہ Imam Hatip اسکولوں کی توسیع کے ذریعے صرف ان اسکولوں کو بحال کیا جا رہا ہے جو 1990 کی دہائی میں بند کر دیے گئے تھے ۔
لیکن اس قسم کے بیانات سے بعض والدین کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا ہے اور ان کا احتجاج جاری ہے ۔
حکمراں اے کے پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ ، علی بوگا کہتے ہیں کہ Imam Hatips اسکولوں میں توسیع محض ابتدا ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ ہم یہاں Imam Hatip کے گریجویٹس یا اتحادیوں کی حیثیت سے جمع ہوئے ہیں ۔ ہم ان اسکولوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ کر دیں گے ۔ ہمیں تمام اسکولوں کو Imam Hatip اسکول بنانے کا موقع ملا ہے ۔
حکومت یہ کہنے کو تیار نہیں ہے کہ اس کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ اس کے بجائے، وزیرِ اعظم اردوان نے ان اسکولوں کے ناقدین پر نکتہ چینی کی ہے جب کہ ان کے وزیرِ تعلیم نے کہا ہے کہ اصلاحات کی مخالفت کرنے والے یا تو دہشت گردوں کے حامی ہیں، یا جنون کی حد تک سیکولرسٹ ہیں۔اس بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی میں جہاں لوگوں کے درمیان اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں، تعلیم بھی متنازع موضوع بن جائے گی۔