ترکی نے آن لائن انسائیکلوپیڈیا، وکی پیڈیا، پر ملک بھر میں پابندی لگا دی ہے۔
ترکی کے ٹیلی کمیونیکیشن کی نگرانی سے متعلق ادارے نے ہفتے کے روز کہا کہ یہ پابندی قومی سیکیورٹی اور ناشائستہ مواد کے خلاف قانون کے تحت لگائی گئی ہے۔
ترک حکومت کا یہ اقدام انسانی حقوق کے گروپس اور اس کے مغربی اتحادیوں کو مزید متفکر کر سکتا ہے جن کا کہنا ہے کہ پچھلے سال کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے انقرہ بڑی تیزی سے اظہار کی آزادی اور دوسرے بنیادی حقوق کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔
ٹیلی کمیونیکیشن کے نگران ادارے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تکنیکی تجزیے اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے ، وکی پیڈیا، کے خلاف انتظامی کارروائی کی گئی ہے۔
بیان میں ایک قانون کا حوالہ دیا گیا ہے جو عوامی تحفٖظ ، قومی سلامتی یا عوامی بھلائی کے لیے کسی ویب پیج یا پوری ویب سائٹ تک افراد کی رسائی روکنے کا اختیار دیتا ہے۔
ترک وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ وکی پیڈیا ترکی کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔
وزارت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تعاون کرنے کی بجائے وہ ان ذرائع کا حصہ بن چکا ہے جو عالمی سطح پر ترکی کو بدنام کرنے کی مہم میں مصروف ہیں۔
ترکی کے سرکاری خبررساں ادارے اناطولی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر' وکی پیڈیا، ترک حکومت کے مطالبات پورے کر دے تو اس پر سے پابندی اٹھائی جاسکتی ہے۔
انسانی حقوق کے گروپس نے بالخصوص ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی پر فیس بک یا ٹویٹر جیسی سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کرنے کا الزام لگایا ہے۔
پچھلے سال کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد کوسرکاری ملازمتوں سے برخاست یا معطل کیا جا جا چکا ہے۔پولیس اور عدلیہ نے 40 ہزار سے زیادہ افراد کو دہشت گرد گروپس کے ساتھ مشکوک رابطوں کی بنا پر گرفتار کیا ہے۔
ترک صدر طیب اردوان نے کہا ہے کہ ملک کو سلامتی سے متعلق جن خطرات کا سامنا ہے ، اس کے پیش نظر یہ اقدامات ضروری تھے۔
پچھلے سال ترکی نے 81 صحافیوں کو جیل بھیج دیا تھا۔ نیویارک میں قائم صحافیوں کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق اس کارروائی کے بعد ترکی دنیا بھر میں سب سے زیادہ صحافیوں کو جیلوں میں ڈالنے والا ملک بن گیا ہے۔